حدثنا ابو الوليد هشام بن عبد الملك، قال: حدثنا عكرمة بن عمار قال: حدثني ابو كثير السحيمي قال: سمعت ابا هريرة يقول: ما سمع بي احد، يهودي ولا نصراني، إلا احبني، إن امي كنت اريدها على الإسلام فتابى، فقلت لها، فابت، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: ادع الله لها، فدعا، فاتيتها، وقد اجافت عليها الباب، فقالت: يا ابا هريرة، إني اسلمت، فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: ادع الله لي ولامي، فقال: ”اللهم، عبدك ابو هريرة وامه، احبهما إلى الناس.“حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ السُّحَيْمِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: مَا سَمِعَ بِي أَحَدٌ، يَهُودِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، إِلاَّ أَحَبَّنِي، إِنَّ أُمِّي كُنْتُ أُرِيدُهَا عَلَى الإِسْلاَمِ فَتَأْبَى، فَقُلْتُ لَهَا، فَأَبَتْ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ لَهَا، فَدَعَا، فَأَتَيْتُهَا، وَقَدْ أَجَافَتْ عَلَيْهَا الْبَابَ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَسْلَمْتُ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ لِي وَلِأُمِّي، فَقَالَ: ”اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَأُمُّهُ، أَحِبَّهُمَا إِلَى النَّاسِ.“
ابوکثیر سحیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: جس کسی یہودی یا عیسائی کو میرا علم ہوا اس نے مجھ سے محبت کی۔ میری والدہ (عیسائی تھیں)، میں چاہتا تھا کہ وہ اسلام قبول کرے مگر وہ انکاری تھی۔ (ایک روز) میں نے اسے (اسلام کی) دعوت دی تو اس نے (حسب عادت) انکار کر دیا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ پھر میں اس (والدہ محترمہ) کے پاس آیا تو اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا۔ اور (اندر ہی سے) کہنے لگیں: ابوہریرہ میں مسلمان ہو گئی ہوں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور عرض کیا: میرے لیے اور میری والدہ کے لیے دعا فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”باری تعالیٰ! تیرا بندہ ابوہریرہ اور اس کی والدہ، دونوں کو لوگوں میں محبوب بنا دے۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه، صحيح مسلم، فضائل صحابه، باب من فضائل أبى هريرة: 2491، المشكاة: 5895، مسند أحمد: 200/4»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 34
فوائد ومسائل: (۱)راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبدالرحمن ہے۔ سات ہجری میں مسلمان ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص بن گئے۔ حصول علم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو محفوظ کرنے کے لیے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے اور اپنے آپ کو کاروبار سے الگ کرکے دین کے لیے وقف کر دیا۔ احادیث بھول جاتی تھیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے دعا کی اور اس کے بعد جو پڑھتے بھولتا نہ تھا۔ سب سے زیادہ احادیث رسول انہی سے مروی ہیں۔ بنو امیہ کے دور حکومت میں مدینہ منورہ کے گورنر بھی رہے۔ (۲) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مناقب بیان کیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے مسلمان تو مسلمان کافر بھی ان سے محبت کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر فتنے میں پڑنے اور ریاکاری کا خدشہ نہ ہو تو انسان اپنی خوبیوں کا تذکرہ کرسکتا ہے۔ (۳) بعض لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور کافروں ہر دو میں مقبول ہوتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہی لوگوں میں سے تھے لیکن افسوس ہے شیعہ حضرات پر جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ (۴) والدین یا عزیز و اقارب کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی اور محبت یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے لیے کوشش کی جائے۔ انہیں دین کی باتیں بتائی جائیں۔ اسی طرح ان کے لیے خود بھی دعا کی جائے اور اللہ کے کسی نیک بندے سے بھی ان کی ہدایت کے لیے دعا کروائی جائے۔ (۵) دین اسلام کی دعوت بار بار پیش کرنی چاہیے، نہ معلوم کسی بھی وقت یہ دعوت کارگر ثابت ہو جائے۔ پھر کسی ہدایت کا سامان باہم پہنچانا ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے جس کے ادا کرنے کا اس سے حوصلے اور عزم کے ساتھ مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ اس نے حق ادا کر دیا ہے اب دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ جو چیز بار بار اس کے سامنے آتی ہے وہ اس پر غور و فکر کرتا ہے جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مختلف مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنی چیزوں کی تشہیر کرتی ہیں حتی کہ ایک گھٹیا چیز بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے۔ اسلام تو کھرا دین ہے اگر مسلمان اسے بار بار پیش کریں تو یقیناً لوگوں کا رجحان اس طرف ہوسکتا ہے۔ آپ نے کبھی لباس یا دیگر کسی چیز کی تشہیر ٹی۔ وی وغیرہ پر دیکھی ہوگی۔ لباس کو پہن کر اور دیگر چیزوں کو استعمال کرکے دکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلام کو بھی عملی صورت میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس کی عملی تصویر دیکھ کر متأثر ہوں۔ (۶) دین اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے اگر کوئی شخص جواباً غلط رویہ اختیار کرتا ہے اور آپ کی مکرم اور محبوب شخصیت کو برا بھلا کہتا ہے تو اس پر صبر کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم (۲۴۹۱)میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات کہے لیکن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صبر کیا۔ (۷) کسی شخص سے اگر دعا کروائی جائے اور وہ دعا قبول ہو جائے تو اس شخص کو بھی مطلع کرنا چاہیے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرسکے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشکل وقت میں خود دعا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی متقی اور پرہیزگار شخص سے بھی دعا کروانی چاہیے۔ (۸) والدین زندہ ہوں تو ان کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے اور فوت ہو جائیں تو ان کی بخشش اور بلندیٔ درجات کی دعا کرنی ضروری ہے۔ (۹) والدین اگر کافر ہوں تو انہیں اسلام کی دعوت دینی چاہیے اور اگر مسلمان ہوں لیکن بے عمل ہوں تو انہیں اسلام کے احکام کی پابندی کی دعوت دینی ضروری ہے۔ یہ انبیاء کی سیرت ہے، نیز والدین برا بھلا بھی کہیں تو بھی انہیں چھوڑنا نہیں چاہیے، البتہ اگر انسان کا دین خطرے میں ہو تو پھر ہجرت کرکے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 34