الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر

الادب المفرد
كتاب
145. بَابُ لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ
145. مومن بہت طعن کرنے والا نہیں ہوتا
حدیث نمبر: 311
Save to word اعراب
وعن عبد الوهاب، عن ايوب، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن عائشة رضي الله عنها، ان يهودا اتوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا‏:‏ السام عليكم، فقالت عائشة‏:‏ وعليكم، ولعنكم الله، وغضب الله عليكم، قال‏:‏ ”مهلا يا عائشة، عليك بالرفق، وإياك والعنف والفحش“، قالت‏:‏ او لم تسمع ما قالوا‏؟‏ قال‏:‏ ”او لم تسمعي ما قلت‏؟‏ رددت عليهم، فيستجاب لي فيهم، ولا يستجاب لهم في‏.‏“وَعَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ يَهُودًا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا‏:‏ السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ‏:‏ وَعَلَيْكُمْ، وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ، وَغَضِبُ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، قَالَ‏:‏ ”مَهْلاً يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ، وَإِيَّاكِ وَالْعُنْفَ وَالْفُحْشَ“، قَالَتْ‏:‏ أَوَ لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أَوَ لَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ‏؟‏ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ، فَيُسْتَجَابُ لِي فِيهِمْ، وَلاَ يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِيَّ‏.‏“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: تم پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اور تم پر موت آئے، اللہ کی لعنت ہو تم پر، اور اس کا غضب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نا عائشہ! نرمی اختیار کر، سختی اور بدکلامی سے بچ۔ اس نے کہا: آپ نے سنا نہیں، انہوں نے کیا کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میں نے جواب دیا ہے وہ تم نے نہیں سنا؟ میں نے ان پر انہی کے کلمات لوٹا دیے ہیں۔ پھر میری دعا ان کے خلاف قبول ہوتی ہے اور ان کی میرے بارے میں قبول نہیں ہوتی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفاحشا: 6030 و مسلم: 2165، 2166»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 311 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 311  
فوائد ومسائل:
(۱)یہودی بد فطرت قوم ہے اور ان کا رویہ انبیاء علیہم السلام سے ہمیشہ گستاخانہ رہا اسی خباثت کا مظاہرہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی کرتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شستگی سے جواب دیتے اور ان کے رویے کو نظر انداز کر دیتے تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور زبان بدکلامی سے بھی محفوظ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حیا دار آدمی گالم گلوچ میں کمینے کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ وہ انداز ہی اختیار کرسکتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے آپ نے اس میں بڑے احسن انداز میں جواب دے دیا۔ اس لیے جب ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایمانی غیرت کے پیش نظر انہیں برا بھلا کہا تو آپ نے انہیں سمجھایا کہ نرمی اختیار کرو کیونکہ نرمی ہی سے انسان میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
(۲) عصر حاضر میں علماء اور دین دار لوگوں کے لیے یہ حدیث مشعل راہ ہے کہ انہیں بدکردار لوگوں سے الجھنے کے بجائے درگزر سے کام لینا چاہیے۔
(۳) کسی کی بدکلامی کا بدلہ لینا جائز ہے لیکن اس میں فحش گوئی نہیں ہونی چاہیے۔
(۴) کافر یا فاسق کی وہ بد دعا جو وہ کسی مسلمان کے خلاف کرتا ہے اور اس کا باعث مسلمان کی دینداری ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی بدعا قبول نہیں کرتا، تاہم اس کے برعکس مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 311   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.