حدثنا عبد الرحمن بن شيبة قال: اخبرني ابن ابي الفديك، عن كثير بن زيد، عن سالم بن عبد الله قال: ما سمعت عبد الله لاعنا احدا قط، ليس إنسانا. وكان سالم يقول: قال عبد الله بن عمر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا ينبغي للمؤمن ان يكون لعانا.“حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: مَا سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ لاَعِنًا أَحَدًا قَطُّ، لَيْسَ إِنْسَانًا. وَكَانَ سَالِمٌ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا.“
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو سوائے ایک آدمی کے کسی پر بھی لعنت کرتے نہیں سنا۔ اور حضرت سالم کہا کرتے تھے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کے شایان شان نہیں کہ کثرت سے لعن طعن کرے۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه المرفوع منه الترمذي، كتاب البر و الصلة، باب ماجاء فى اللعن و الطعن: 2019 و أخرجه بتمامه الروياني فى مسنده: 1445 و الحاكم: 110/1 و البيهقي فى الشعب الإيمان: 4792 - انظر الصحيحة: 2636»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 309
فوائد ومسائل: (۱)کسی کو مذمت یا غیبت وغیرہ کے ذریعے سے بے عزت کرنا طعن کہلاتا ہے۔ کبھی ایسا ممکن ہے کہ مومن بندہ بھی غصے میں کسی پر طعن کر دے لیکن یہ اس کی عادت نہیں بن سکتی۔ اگر کسی کا یہ وصف ظاہر ہے تو اسے اپنے بارے میں نفاق سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے جو انسان کو منافق بنا دیتا ہے۔ (۲) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع رسول میں ضرب المثل تھے۔ ہر معاملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض لازم سمجھتے۔ لوگوں پر لعن طعن کے حوالے سے بھی وہ حد درجہ محتاط تھے کہ صرف ایک بار ان سے غصے میں یہ فعل سرزد ہوا ورنہ انہوں نے کسی پر لعن طعن نہیں کیا۔ وہ اس طرح کہ اپنے ایک خادم پر ناراض ہوئے تو اسے غصے میں کہا کہ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ لیکن اس پر بھی ندامت کی اور بیہقی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ پھر اس غلام کو آزاد کر دیا۔(الصحیحة للألباني:۶؍۱۳۵، حدیث:۲۶۳۶)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 309