الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر

الادب المفرد
كتاب
139. بَابُ الْبُخْلِ
139. بخل کی مذمت کا بیان
حدیث نمبر: 296
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن ابي الاسود، قال‏:‏ حدثنا حميد بن الاسود، عن الحجاج الصواف قال‏:‏ حدثني ابو الزبير، قال‏:‏ حدثنا جابر قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”من سيدكم يا بني سلمة‏؟“‏ قلنا‏:‏ جد بن قيس، على انا نبخله، قال‏:‏ ”واي داء ادوى من البخل‏؟‏ بل سيدكم عمرو بن الجموح“، وكان عمرو على اصنامهم في الجاهلية، وكان يولم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تزوج‏.‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا جَابِرٌ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَنْ سَيِّدُكُمْ يَا بَنِي سَلِمَةَ‏؟“‏ قُلْنَا‏:‏ جُدُّ بْنُ قَيْسٍ، عَلَى أَنَّا نُبَخِّلُهُ، قَالَ‏:‏ ”وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ‏؟‏ بَلْ سَيِّدُكُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ“، وَكَانَ عَمْرٌو عَلَى أَصْنَامِهِمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يُولِمُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَزَوَّجَ‏.‏
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو سلمہ! تمہارا سردار کون ہے؟ ہم نے عرض کیا: جد بن قیس، اگرچہ ہم اسے بخیل سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخل سے بڑی بھی کوئی بیماری ہے؟ بلکہ تمہارے سردار عمرو بن جموح ہیں۔ اور عمرو بن جموح زمانہ جاہلیت میں ان کے بتوں کے نگران تھے۔ بعد ازاں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی کرتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ولیمے کا انتظام کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: الروض النضير: 484 - أخرجه بتمامه أبوالشيخ فى الأمثال: 92 و البيهقي فى الشعب: 289/13 و أبونعيم فى معرفة الصحابة: 1986/4»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 296 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 296  
فوائد ومسائل:
(۱)اہل عرب کے ہاں سرداری نظام رائج تھا۔ ہر قبیلے کا ایک لیڈر اور قائد ہوتا، لوگ جس کی اطاعت کرتے اور اس کے حکم سے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا خواہ وہ غلط حکم دے۔ لیکن وہ اپنا قائد اسے منتخب کرتے جو عمدہ صفات کا مالک ہوتا۔ گھٹیا اور کمینہ شخص سیادت کا اہل ہرگز نہ ہوتا جیسا کہ ہمارے ہاں ہے۔ بنو سلمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا:جد بن قیس ہے، تاہم اس میں کمزوری ہے کہ وہ بخیل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کوئی معمولی کمزوری نہیں بلکہ بہت بڑی بیماری ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص سردار کہلانے کا اہل ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ بخیل سے کسی کی خیر خواہی کی توقع کرنا ہی بے معنی بات ہے۔
(۲) آپ نے فرمایا کہ تمہارے حقیقی سردار عمر وبن جموح ہیں۔ یہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے، بعد ازاں بدر میں شریک ہوئے اور احد میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ کیونکہ وہ سخی اور فیاض ہیں اور قائد کی بنیادی خوبیوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جود وسخا سے متصف ہو۔
(۳) اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں کسی دوسرے سے معاونت لی جاسکتی ہے اور مکمل ولیمہ بھی کوئی دوسرا شخص کرسکتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 296   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.