حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش قال: حدثني ثابت بن عبيد قال: ما رايت احدا اجل إذا جلس مع القوم، ولا افكه في بيته، من زيد بن ثابت.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَجَلَّ إِذَا جَلَسَ مَعَ الْقَوْمِ، وَلاَ أَفْكَهَ فِي بَيْتِهِ، مِنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ.
حضرت ثابت بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دوستوں کی مجلس میں پروقار اور گھر میں مزاح کے ساتھ رہنے والا سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں دیکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25328 و ابن أبى الدنيا فى النفقة على العيال: 570 و البيهقي فى شعب الإيمان: 490/10»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 286
فوائد ومسائل: دین کی سمجھ داری یہ ہے کہ انسان دوستوں کے ساتھ زیادہ بے تکلفي نہ برتے بلکہ وقار اور سنجیدگی کے ساتھ رہے تاکہ کوئی اس کے ساتھ فضول حرکت نہ کرے اور آدمی گناہ میں مبتلا نہ ہو اور گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان میں گھل مل کر رہنا چاہیے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہوتا ہے کہ دوستوں کی گالیاں بھی برداشت کرلی جاتیں ہیں اور گھر والوں کا مزاح بھی برداشت نہیں ہوتا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 286