حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا الاعمش، عن مالك بن الحارث، عن عبد الله بن ربيعة قال: كنا جلوسا عند عبد الله، فذكروا رجلا، فذكروا من خلقه، فقال عبد الله: ارايتم لو قطعتم راسه اكنتم تستطيعون ان تعيدوه؟ قالوا: لا، قال: فيده؟ قالوا: لا، قال: فرجله؟ قالوا: لا، قال: فإنكم لا تستطيعون ان تغيروا خلقه حتى تغيروا خلقه، إن النطفة لتستقر في الرحم اربعين ليلة، ثم تنحدر دما، ثم تكون علقة، ثم تكون مضغة، ثم يبعث الله ملكا فيكتب رزقه وخلقه، وشقيا او سعيدا.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ، فَذَكَرُوا رَجُلاً، فَذَكَرُوا مِنْ خُلُقِهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ قَطَعْتُمْ رَأْسَهُ أَكُنْتُمْ تَسْتَطِيعُونَ أَنْ تُعِيدُوهُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَيَدُهُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَرِجْلُهُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لاَ تَسْتَطِيعُونَ أَنْ تُغَيِّرُوا خُلُقَهُ حَتَّى تُغَيِّرُوا خَلْقَهُ، إِنَّ النُّطْفَةَ لَتَسْتَقِرُّ فِي الرَّحِمِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ تَنْحَدِرُ دَمًا، ثُمَّ تَكُونُ عَلَقَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُضْغَةً، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُكْتَبُ رِزْقَهُ وَخُلُقَهُ، وَشَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا.
حضرت عبداللہ بن ربیعہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اس کے اخلاق کی بھی بات کی تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیکھو! اگر تم اس کا سر کاٹ دو تو کیا اسے دوبارہ جوڑ سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: تو اس کا ہاتھ؟ وہ کہنے لگے: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اس کی ٹانگ؟ انہوں نے کہا: نہیں! سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم اس کی خلقت کو نہیں بدل سکتے تو اس کا اخلاق بھی نہیں بدل سکتے، بلاشبہ نطفہ رحم میں چالیس راتوں تک قرار پکڑتا ہے، پھر وہ خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے، پھر علقہ (جما ہوا خون) بن جاتا ہے، پھر گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق، اس کا اخلاق اور اس کا بدبخت یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد موقوفًا لكن قوله (إن النطفة)....... الخ فى حكم المرفوع، وقد صح مرفوعًا: الإرواء: 2143 - أخرجه الطبراني فى الكبير: 8884 و البيهقي فى القضاء و القدر: 479 و ابن بطة فى الإبانة: 37/4»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد موقوفًا لكن قوله (إن النطفة) ....... الخ فى حكم المرفوع، وقد صح مرفوعًا
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 283
فوائد ومسائل: (۱)بلاشبہ نطفہ رحم میں....سے آخری تک بظاہر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے لیکن مرفوعاً بھی صحیح ثابت ہے۔ (۲) خیر و شر کا خالق حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن تقدیر کا سہارا لے کر برائی کے راستے پر چلنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں ایسے لکھا ہے ہرگز درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہیں عمل کرنے چاہئیں اللہ تعالیٰ نے جس کو جس کے لیے پیدا کیا ہے اسے اسی کی طرف توفیق ملتی ہے۔ خیر و شر کے دونوں راستے اللہ تعالیٰ نے بتا دیے ہیں اور شر والے راستے کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ (۳) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے جب کسی آدمی کی بد اخلاقی کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہارا کام اصلاح کرنا ہے کسی کو بدلنا تمہارے اختیار میں نہیں۔ برے اور اچھے اخلاق کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یعنی اللہ کی تقدیر میں یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے کہ وہ بد اخلاق ہوگا۔ لیکن اس تقدیر کا کسی کو علم نہیں اس لیے ہر شخص کو احکام الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔ (۴) تقدیر کے حوالے سے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کی بنیادی پر یہ لکھ دیا ہے کہ فلاں ایسا ہوگا، فلاں کو اتنا رزق ملے گا وغیرہ، اور ہمیں اس کے بارے میں نہیں بتایا۔ ایسا نہیں ہے کہ لکھ کر ہمارے اوپر تھوپ دیا گیا ہو۔ جو ہم کر رہے ہیں وہ لکھا ہوا ہے نہ کہ ہم لکھے ہوئے کے پابند ہیں بلکہ ہمیں خیر و شر کے دونوں راستے بتا دیے گئے خیر کو اختیار کرنے اور شر سے بچنے کا حکم ہے۔ جس طرح رزق کے بارے میں ہم تگ و دو کرتے ہیں۔ اچھا کاروبار کرتے ہیں، نقصان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح اعمال کے بارے میں بھی کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 283