حدثنا إسماعيل بن ابي اويس قال: حدثني عبد العزيز بن محمد، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إنما بعثت لاتمم صالح الاخلاق.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلاقِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی مبعوث کیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 8952 و ابن سعد فى الطبقات: 191/1 و الحاكم: 670/2 و البيهقي: 323/10 - الصحيحة: 45»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 273
فوائد ومسائل: (۱)مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں کے اخلاق کی جو کمی ہے، یا لوگوں نے جن اچھے اخلاقی امور کو ترک کر دیا ہے میں ان سب کو جمع کرنے والا اور ان کی تکمیل کرنے والا ہوں۔ گویا سابقہ تمام ادیان کے اچھے اخلاق کو اسلام میں جمع کر دیا ہے اور یہ صرف اسلام کا خاصہ ہے۔ (۲) صالح اخلاق سے مراد وہ امور جو دین، دنیا اور آخرت کو اچھا بنائیں، یعنی صالح اخلاق یہ ہیں کہ انسان دین کے معاملات بھی صحیح طور پر پورے کرے اور دنیا کے معاملات بھی خوش اسلوبی سے نبھائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 273