حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها انها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين امرين إلا اختار ايسرهما، ما لم يكن إثما، فإذا كان إثما كان ابعد الناس منه، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه، إلا ان تنتهك حرمة الله تعالى، فينتقم لله عز وجل بها.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلاَّ اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، إِلاَّ أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللهِ تَعَالَى، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملوں میں اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں آسان ہی کا انتخاب کیا۔ جب تک وہ گناہ کا کام نہ ہوتا، اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی حرمت کو پامال کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کے لیے انتقام لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبى صلى الله عليه وسلم: 3560 و مسلم: 2327 و أبوداؤد: 4785 - انظر مختصر الشمائل: 300»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 274
فوائد ومسائل: (۱)یہ بات حسن اخلاق میں سے ہے کہ انسان شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے آسان پسند ہو۔ شدت پسند اور تعنت پسند نہ ہو، البتہ عزیمت کو اختیار کرنے والا ہو، مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے اور جرابوں پر مسح کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تو کوئی انسان صرف پاؤں دھونے پر ہی عمل کرے اور مسح والے عمل کو نہ لے تو یہ متعنت ہو گا۔ جو اچھے اخلاق والا نہیں ہے۔ تاہم آسانی کا یہ مطلب نہیں کہ اگر حرام میں آسانی ہے تو اس کو اختیار کر لیا جائے بلکہ حرام سے تو آپ سب سے زیادہ اجتناب کرتے تھے۔ یہ صرف جائز اور مباح امور میں ہے۔ (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض وارد ہوتا تھا کہ آپ نے تو جنگیں لڑیں ہیں، لوگوں کو قتل بھی کیا ہے جبکہ آپ حسن اخلاق کا پیکر تھے؟ اس کا جواب بھی اس حدیث میں آگیا کہ آپ نے ذاتی انتقام کی خاطر ایسا کبھی نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کی خاطر کیا۔ اور ایسا کرنا اخلاق کے منافي نہیں۔ جس طرح ڈاکٹر جسم کا ناکارہ حصہ کاٹ دیتا ہے یا چیر پھاڑ کرتا ہے تو اسے کوئی بھی ظالم نہیں کہتا کیونکہ وہ اصلاح کی خاطر کرتا ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا اصلاح کی خاطر کیا جو عین اخلاق ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 274