حدثنا احمد بن محمد، حدثنا داود بن عبد الرحمن قال: سمعت إسماعيل، عن عاصم بن لقيط بن صبرة، عن ابيه قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ودفع الراعي في المراح سخلة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”لا تحسبن، ولم يقل: لا تحسبن إن لنا غنما مئة لا نريد ان تزيد، فإذا جاء الراعي بسخلة ذبحنا مكانها شاة“، فكان فيما قال: ”لا تضرب ظعينتك كضربك امتك، وإذا استنشقت فبالغ، إلا ان تكون صائما.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَفَعَ الرَّاعِي فِي الْمُرَاحِ سَخْلَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لاَ تَحْسِبَنَّ، وَلَمْ يَقُلْ: لاَ تَحْسَبَنَّ إِنَّ لَنَا غَنَمًا مِئَةً لاَ نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ، فَإِذَا جَاءَ الرَّاعِي بِسَخْلَةٍ ذَبَحْنَا مَكَانَهَا شَاةً“، فَكَانَ فِيمَا قَالَ: ”لاَ تَضْرِبْ ظَعِينَتَكَ كَضَرْبِكَ أَمَتَكَ، وَإِذَا اسْتَنْشَقْتَ فَبَالِغْ، إِلاَّ أَنْ تَكُونَ صَائِمًا.“
سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور چرواہے نے بکری کا ایک بچہ باڑے میں داخل کیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا) اور فرمایا: ”تم کچھ خیال نہ کرنا۔ ہماری سو بکریاں ہیں، ہم انہیں سو سے نہیں بڑھنے دیتے۔ جب چرواہا کوئی نیا پیدا شده بچہ لاتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر لیتے ہیں۔“ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو باتیں ارشاد فرمائیں ان میں یہ بھی تھا: ”اپنی بیوی کو لونڈی کی طرح نہ مارو، اور وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھاتے ہوئے خوب مبالغہ کرو الّا یہ کہ تم روزے سے ہو (تو پھر مبالغہ نہ کرو)۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الطهارة، باب فى الاستنشار: 142 - أخرجه الحاكم فى المستدرك: 148/1 و وافقه الذهبي»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 166
فوائد ومسائل: (۱)آپ کے فرمان ”بیوی کو لونڈی کی طرح نہ مارو“ سے معلوم ہوا کہ غلام یا لونڈی اگر معصیت کا ارتکاب کریں تو انہیں مناسب سزا دی جاسکتی ہے اور بیوی کو بھی تادیباً مارا جاسکتا ہے، تاہم مار شدید نہیں ہونی چاہیے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ وضو کرتے وقت ناک میں مبالغے سے پانی چڑھانا واجب ہے، البتہ روزے کی حالت میں یہ واجب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک کی سانس کے ذریعے سے پانی کھینچا جائے۔ (۳) گوشت کھانا فضول خرچی نہیں ہے اور مہمان کے لیے خصوصی اہتمام بھی جائز ہے، البتہ اہتمام اگر مہمان کی خاطر نہ ہو بلکہ ویسے ہی معمول کا کھانا ہو تو مہمان کو بتا دینا چاہیے تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ میری خاطر تکلف ہوا ہے، نیز اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ جو کام آپ نے نہیں کیا اس کا کریڈٹ خواہ مخواہ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 166