حدثنا مسلم، قال: حدثنا شعبة، عن شميسة العتكية قالت: ذكر ادب اليتيم عند عائشة رضي الله عنها، فقالت: إني لاضرب اليتيم حتى ينبسط.حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ شُمَيْسَةَ الْعَتَكِيَّةِ قَالَتْ: ذُكِرَ أَدَبُ الْيَتِيمِ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي لأَضْرِبُ الْيَتِيمَ حَتَّى يَنْبَسِطَ.
شمیسہ عتکیہ کہتی ہیں کہ ایک روز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یتیم کو ادب سکھانے اور اس کی تربیت کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: میں تو یتیم کو تربیت کی خاطر اس طرح مارتی ہوں کہ وہ زمین پر لیٹ جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: رواه ابن أبى شيبه: 340/5 و المروزي فى البر و الصلة: 209 و ابن أبى الدنيا فى العيال: 629 و البيهقي فى الكبرىٰ: 466/6 - الصحيحة: 624/7»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 142
فوائد ومسائل: بچوں کو تربیت کی خاطر مارنا رحمت و شفقت کے ہرگز خلاف نہیں۔ پیار کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچے ادب و احترام سے عاری ہوں اور بری عادات ان میں پختہ ہو جائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ اگر وہ دس برس کے ہوکر نماز نہ پڑھیں تو انہیں سزا دو۔ (سنن ابي داود، حدیث:۴۹۵) یتیم کو بھی اپنے بچوں کی طرح مارنا جائز ہے ینبسط کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کی ہربات کو نہیں مانتی بلکہ اسے مارتی بھی ہوں حتی کہ وہ زمین پر لیٹ جاتا ہے جس طرح بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان کی بات نہ مانی جائے تو وہ ایسا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت تک ہے جب بچے چھوٹے ہوں۔ بلوغت کے قریب یا بلوغت کے بعد زیادہ مارنے سے بچے باغی بھی ہو جاتے ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 142