حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري قال: حدثني عبد الله بن ابي بكر، ان عروة بن الزبير اخبره، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: جاءتني امراة معها ابنتان لها، فسالتني فلم تجد عندي إلا تمرة واحدة، فاعطيتها، فقسمتها بين ابنتيها، ثم قامت فخرجت، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فقال: ”من يلي من هذه البنات شيئا، فاحسن إليهن، كن له سترا من النار.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: جَاءَتْنِي امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَسَأَلَتْنِي فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي إِلاَّ تَمْرَةً وَاحِدَةً، فَأَعْطَيْتُهَا، فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: ”مَنْ يَلِي مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ شَيْئًا، فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ.“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں، اس نے مجھ سے سوال کیا تو میرے پاس صرف ایک کھجور تھی جو میں نے اسے دے دی۔ اس نے وہ دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی اور میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بیٹیوں کے امور کا نگران بنا اور اس نے ان سے حسن سلوک کیا تو یہ اس کے لیے آگ سے رکاوٹ ہوں گی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته: 5995 و مسلم: 2629 و الترمذي: 1915»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 132
فوائد ومسائل: (۱)مطلب یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے بیٹیاں عطا کیں اور اس نے ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا اور ان سے پیار محبت اور حسن سلوک کرتا رہا تو روز قیامت یہ عمل اس کے لیے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (الأدب المفرد، ح:۱۳۳) (۲) امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ باب میں یتیم کا ذکر ہے جبکہ حدیث یا اس کے طرق میں یتیم کا ذکر نہیں ہے۔ شاید مصنف کا رجحان یہ ہو کہ یہ بچیاں یتیم تھیں یا یہ مقصد ہے کہ جو یتیموں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کرے گا وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث:۸۹ کے فوائد)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 132