حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا عبدة، عن عبيد الله، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي هريرة قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الناس اكرم؟ قال: ”اكرمهم عند الله اتقاهم“، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال: ”فاكرم الناس يوسف نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله“، قالوا: ليس عن هذا نسالك، قال: ”فعن معادن العرب تسالوني؟“ قالوا: نعم، قال: ”فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟ قَالَ: ”أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاهُمْ“، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: ”فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللهِ ابْنُ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ خَلِيلِ اللهِ“، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: ”فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟“ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ”فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون لوگ زیادہ عزت و شرف والے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہم اس لحاظ سے نہیں پوچھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر لوگوں میں سب سے افضل اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ ابن خلیل اللہ ہیں۔“ انہوں نے کہا: ہماری مراد یہ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تم عرب کے خاندانوں کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم میں سے جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین میں علم و فقاہت حاصل کریں۔“
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 129
فوائد ومسائل: (۱)مذکورہ حدیث میں عزت و شرف کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے۔ شرف و عزت کی سب سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرکے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرے پھر آپ نے بتایا کہ حسب و نسب کے لحاظ سے اگر کوئی شخص سب سے زیادہ معزز ہے تو وہ سیدنا یوسف علیہ السلام ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا اور پردادا بھی انبیاء تھے کیونکہ ان میں علم و نبوت اور اعلیٰ اخلاق کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ اور جہاں تک عرب کے خاندانوں کا تعلق ہے تو جو جاہلیت میں شرف و عزت والا تھا وہ اسلام میں بھی زیادہ عزت والا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اس میں فقاہت حاصل کرے، یعنی خاندانی شرف و عزت کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص علم و عمل میں بھی آگے بڑھ جاتا ہے تو یہ یقیناً دوسروں سے زیادہ معزز ہوگا۔ گویا ایک شخص جاہلیت میں بھی شرف و عزت والا تھا پھر اسلام قبول کرکے اس نے علم و عمل میں بھی مقام پیدا کیا تو یہ سب سے زیادہ عزت والا ہے بہ نسبت اس شخص کے جو جاہلیت میں تو عزت والا نہیں تھا لیکن اسلام میں اس نے فقاہیت حاصل کی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصل عزت و شرف ایمان اور عمل صالح ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ محض خاندانی نسبت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ (۲) اسلام نے خاندانی عزت و شرف کا اعتبار کیا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو عزت دی ہے تو اس کی عزت و تکریم کرنا ضروری ہے، تاہم شرعی احکام پر عمل کرنے میں سب برابر ہیں اور حدود اللہ کا نفاذ بھی سب پر برابر ہوگا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 129