حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا بشير بن سليمان، عن مجاهد قال: كنت عند عبد الله بن عمرو، وغلامه يسلخ شاة، فقال: يا غلام، إذا فرغت فابدا بجارنا اليهودي، فقال رجل من القوم: اليهودي اصلحك الله؟ قال: إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يوصي بالجار، حتى خشينا او رئينا انه سيورثه.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَغُلاَمُهُ يَسْلُخُ شَاةً، فَقَالَ: يَا غُلاَمُ، إِذَا فَرَغْتَ فَابْدَأْ بِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: الْيَهُودِيُّ أَصْلَحَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِي بِالْجَارِ، حَتَّى خَشِينَا أَوْ رُئِينَا أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.
حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھا اور ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اے لڑکے! جب اس کام (گوشت وغیرہ بنانے) سے فارغ ہو جائے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی ہمسائے کو گوشت دینا۔ حاضرین قوم میں سے کسی آدمی نے کہا: یہودی! (کو ہدیہ دلا رہے ہیں)، اللہ آپ کی اصلاح کرے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقیناً میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے ہوئے سنا حتی کہ ہمیں خدشہ پیدا ہو گیا یا ہمیں خیال گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسے وارث قرار دے دیں گے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5152 و الترمذي: 1943 و أحمد: 6496 و الحميدي: 604 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 321 و ابن شيبة: 25417 و المروزي فى البر و الصلة: 216 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9565 و فى الآداب: 87 - الإرواء: 891»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 128
فوائد ومسائل: (۱)باب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے پڑوس میں کوئی یہودی یا کافر رہتا ہو تو اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ باب کے تحت مذکور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمسایہ کافر ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض ہے۔ تفصیل حدیث نمبر ۱۰۵ کے تحت گزر چکی ہے۔ (۲) استاذ یا کسی بڑے شخص کا عمل درست معلوم نہ ہو تو اس پر تنقید کرنا درست ہے، تاہم انداز سائشہ ہونا چاہیے، نیز ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے کیونکہ ممکن ہے اعتراض کرنے والے کی بات درست نہ ہو اور اس کے پاس اپنے عمل کے جواز کی دلیل موجود ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 128