حدثنا عمرو بن عاصم، قال: حدثنا همام، قال: حدثنا قتادة، عن انس قال: مر يهودي على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: السام عليكم، فرد اصحابه السلام، فقال: ”قال: السام عليكم“، فاخذ اليهودي فاعترف، قال: ”ردوا عليه ما قال.“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ أَصْحَابُهُ السَّلاَمَ، فَقَالَ: ”قَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ“، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، قَالَ: ”رُدُّوا عَلَيْهِ مَا قَالَ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: السام علیکم (تمہیں موت آئے)، صحابۂ کرام نے سلام کا جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تو السام علیکم کہا ہے۔“ یہودی کو پکڑا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بھی اس کے جواب میں ایسے ہی کہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب تفسير القرآن: 3301 و مسلم: 2163 و أبوداؤد: 5207 و النسائي فى الكبرىٰ: 10147 و ابن ماجه: 3697 مختصرًا»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1105
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا ناجائز ہے، تاہم اشارے سے یہ کہنا کہ کیا حال ہے وغیرہ جائز ہے۔ دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ کافروں کے سلام کا جواب بھی سوچ سمجھ کر دینا چاہیے کہ جو وہ کہیں وہی انہیں لوٹا دینا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1105