حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق قال: سمعت مسلم بن نذير يقول: سال رجل حذيفة فقال: استاذن على امي؟ فقال: إن لم تستاذن عليها رايت ما تكره.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: سَمِعْتُ مُسْلِمَ بْنَ نَذِيرٍ يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ حُذَيْفَةَ فَقَالَ: أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي؟ فَقَالَ: إِنْ لَمْ تَسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا رَأَيْتَ مَا تَكْرَهُ.
مسلم بن نذیر رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا میں اپنی والدہ کے پاس جانے کی بھی اجازت طلب کروں؟ انہوں نے فرمایا: اگر تم اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں لو گے تو تم اس کو اس حالت میں دیکھو گے جس حالت میں اسے دیکھنا نا پسند کرتے ہو۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه عبدالرزاق: 19421 و البيهقي فى الكبرىٰ: 97/7»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1060
فوائد ومسائل: مذکورہ بالا دونوں روایات کا مطلب یہ ہے کہ والدہ سے بھی اجازت لے کر اس کے پاس جانا چاہیے۔ اگر اجازت نہ لی تو ممکن ہے کہ والدہ اس حالت میں ہو جس میں وہ اسے دیکھنا پسند نہیں کرتا، مثلاً وہ کپڑے بدل رہی ہے اور یہ اچانک پہنچ جائے تو ایسی حالت میں اسے خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ اجازت لے کر اندر جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1060