حدثنا عبد الغفار بن داود، قال: حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن موسى بن عقبة، عن ابن شهاب، ان عمر بن عبد العزيز سال ابا بكر بن سليمان بن ابي حثمة: لم كان ابو بكر يكتب: من ابي بكر خليفة رسول الله، ثم كان عمر يكتب بعده: من عمر بن الخطاب خليفة ابي بكر، من اول من كتب: امير المؤمنين؟ فقال: حدثتني جدتي الشفاء - وكانت من المهاجرات الاول، وكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه إذا هو دخل السوق دخل عليها - قالت: كتب عمر بن الخطاب إلى عامل العراقين: ان ابعث إلي برجلين جلدين نبيلين، اسالهما عن العراق واهله، فبعث إليه صاحب العراقين بلبيد بن ربيعة، وعدي بن حاتم، فقدما المدينة فاناخا راحلتيهما بفناء المسجد، ثم دخلا المسجد فوجدا عمرو بن العاص، فقالا له: يا عمرو، استاذن لنا على امير المؤمنين عمر، فوثب عمرو فدخل على عمر فقال: السلام عليك يا امير المؤمنين، فقال له عمر: ما بدا لك في هذا الاسم يا ابن العاص؟ لتخرجن مما قلت، قال: نعم، قدم لبيد بن ربيعة، وعدي بن حاتم، فقالا لي: استاذن لنا على امير المؤمنين، فقلت: انتما والله اصبتما اسمه، وإنه الامير، ونحن المؤمنون. فجرى الكتاب من ذلك اليوم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ سَأَلَ أَبَا بَكْرِ بْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: لِمَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ يَكْتُبُ: مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ، ثُمَّ كَانَ عُمَرُ يَكْتُبُ بَعْدَهُ: مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَلِيفَةِ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ أَوَّلُ مَنْ كَتَبَ: أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي الشِّفَاءُ - وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ، وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا هُوَ دَخَلَ السُّوقَ دَخَلَ عَلَيْهَا - قَالَتْ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى عَامِلِ الْعِرَاقَيْنِ: أَنِ ابْعَثْ إِلَيَّ بِرَجُلَيْنِ جَلْدَيْنِ نَبِيلَيْنِ، أَسْأَلُهُمَا عَنِ الْعِرَاقِ وَأَهْلِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الْعِرَاقَيْنِ بِلَبِيدِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، فَقَدِمَا الْمَدِينَةَ فَأَنَاخَا رَاحِلَتَيْهِمَا بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلاَ الْمَسْجِدَ فَوَجَدَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَقَالاَ لَهُ: يَا عَمْرُو، اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ، فَوَثَبَ عَمْرٌو فَدَخَلَ عَلَى عُمَرَ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا بَدَا لَكَ فِي هَذَا الِاسْمِ يَا ابْنَ الْعَاصِ؟ لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، قَالَ: نَعَمْ، قَدِمَ لَبِيدُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَعَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، فَقَالاَ لِي: اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقُلْتُ: أَنْتُمَا وَاللَّهِ أَصَبْتُمَا اسْمَهُ، وَإِنَّهُ الأَمِيرُ، وَنَحْنُ الْمُؤْمِنُونَ. فَجَرَى الْكِتَابُ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ.
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ رحمہ اللہ سے پوچھا: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کیوں لکھتے تھے: من ابی بکر خليفۃ رسول اللہ، پھر ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لکھتے تھے: عمر بن خطاب خلیفۃ ابوبکر کی طرف سے، اور پھر سب سے پہلے امیر المومنین کس نے لکھنا شروع کیا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے میری دادی شفاء نے بتایا، اور وہ ابتدا میں ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب بازار آتے تو ان کے ہاں ضرور حاضر ہوتے، وہ فرماتی ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ و بصرہ کے گورنروں کو لکھا کہ میرے پاس دو مضبوط اور سمجھ دار آدمی بھیجو تاکہ میں ان سے عراق اور وہاں کے باشندوں کے بارے میں دریافت کر سکوں۔ چنانچہ دونوں گورنروں نے سیدنا لبيد بن ربیعہ اور سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہما کو بھیجا۔ وہ مدینہ طیبہ آئے اور دونوں نے اپنی سواریاں مسجد کے سامنے بٹھائیں، اور مسجد میں داخل ہوئے تو انہیں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ملے۔ دونوں نے ان سے کہا: اے عمرو! ہمارے لیے امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کیجیے۔ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ جلدی سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: السلام عليك يا أمير المؤمنین۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عاص کے بیٹے! یہ نام تجھے کہاں سے سوجھا؟ جو تم نے کہا اس کی وجہ بیان کرو۔ انہوں نے کہا: ضرور، لبيد بن ربیعہ اور عدی بن حاتم آئے ہیں، اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ امیر المومنین سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو۔ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم تم نے ان کا صحیح نام تجویز کیا ہے۔ وہ واقعی امیر ہیں اور ہم مومن ہیں۔ اسی دن سے یہ خطاب جاری ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: التمهيد لابن عبدالبر: 76/10 و أسد الغابة»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1023
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ امیر کی تکریم اور اسے سلام کہنا امیر کا حق اور رعایا کا فرض ہے۔ اس جذبے کے تحت سلام خوشامد کے زمرے میں نہیں آتا۔ (۲) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بہت دور اندیش انسان تھے۔ انہوں نے دانا آدمی بلائے تاکہ وہ صحیح حالات سے آگاہ کرسکیں۔ نیز ان کی حکومت پر گرفت اور عوام کی فکر بھی واضح ہو گئی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1023