حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا الضحاك بن نبراس ابو الحسن، عن ثابت البناني، عن انس بن مالك، ان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يكونون مجتمعين فتستقبلهم الشجرة، فتنطلق طائفة منهم عن يمينها وطائفة عن شمالها، فإذا التقوا سلم بعضهم على بعض.حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ نِبْرَاسٍ أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يَكُونُونَ مُجْتَمِعِينَ فَتَسْتَقْبِلُهُمُ الشَّجَرَةُ، فَتَنْطَلِقُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عَنْ يَمِينِهَا وَطَائِفَةٌ عَنْ شِمَالِهَا، فَإِذَا الْتَقَوْا سَلَّمَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اکٹھے ہوتے، پھر ان کے سامنے درخت آجاتا اور کچھ لوگ اس سے دائیں ہو جاتے اور کچھ بائیں ہو جاتے، پھر جب دوبارہ ملتے تو ایک دوسرے کو سلام کہتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: المعجم الأوسط للطبراني، حديث: 7987»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1011
فوائد ومسائل: سلام کہنے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان دور سے آئے تب سلام کہے بلکہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جائیں تو بھی سلام کہنا چاہیے۔ ایک دوسرے سے الگ ہوکر دوبارہ اکٹھے ہوں خواہ چند لمحے بعد ہو تو بھی سلام کہنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1011