اخبرنا ابو داود، نا سفيان، عن فضيل بن غزوان، عن ابن ابي نعم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((من قذف عبده وهو بريء مما قال، حد له يوم القيامة)).أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، نا سُفْيَانُ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ قَذَفَ عَبْدَهُ وَهُوَ بَرِيءٌ مِمَّا قَالَ، حُدَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے غلام پر تہمت لگاتا ہے، جبکہ وہ اس تہمت سے بری ہے تو قیامت کے دن اس پر حد قائم کی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «السابق.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 906 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 906
فوائد: تہمت لگانا بہت بڑا جرم اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو (ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر فرمایا) پاکدامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔“’ (بخاري، رقم: 6857) تہمت لگانے والوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً﴾(النور: 4).... ”اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، پھر چار گواہ نہیں لاتے انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔“ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا اگر غلام مالک پر تہمت لگائے جبکہ مالک تہمت سے بری ہو تو پھر غلام کو حد لگے گی۔ اور اگر مالک غلام پر تہمت لگائے تو مالک پر دنیا میں حد قائم نہیں ہوگی (اس پر علماء کا اتفاق ہے)۔ (توضیح الاحکام: 6؍ 260) لیکن روز قیامت وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا، اگر غلام نے واقعی جرم کیا ہو تو پھر غلام کو سزا ملے گی، مذکورہ حدیث سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو اپنے مالکانہ اختیارات کے گھمنڈ میں اپنے غلاموں اور نوکروں پر ظلم کرتے ہیں۔