الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 903
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث میں جو چیزیں بیان ہوئی ہیں اگر کوئی نفس ان کی زد میں آکر مر جائے یا زخمی ہو جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو ایسی صورت میں اس چیز کا مالک تاوان اور چٹی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ جانور کوئی چھوٹ کر بھاگ جائے اور اسی اثنا میں کسی کو زخمی کر دے یا ہلاک تو جانور کا مالک ذمہ دار نہیں ہوگا۔
(2).... کنویں سے کوئی آدمی پانی نکالنے کی کوشش میں کنویں میں گر پڑے تو کنویں کا مالک ذمے دار نہیں ہوگا۔
(3).... اسی طرح معدنی چیزیں نکالنے کے لیے جو کان کھودی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مزدور کان میں کام کر رہا ہے کہ اوپر سے پتھر گرا یا پیچھے سے پتھر گر کر راستہ بند ہوگیا جس کی وجہ سے وہ مزدور فوت ہوگیا، اس صورت میں کان کا مالک قاتل شمار نہیں ہوگا۔ اور قتل خطا والی دیت بھی اس پر لازم نہیں ہوگی۔
رکاز:.... اس خزانے کو کہتے ہیں جو گزشتہ لوگوں نے زمین میں دفن کر دیا ہو اور یہ خزانہ کسی آدمی کو مل جائے تو پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کر ادے اور بقیہ اپنے پاس رکھ لے۔ لیکن اس کے لیے نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں ہے۔ خواہ وہ چاندی سونے کے نصاب کو پہنچے یا نہ پہنچے، ہر صورت میں خمس نکالنا ہوگا۔ جمہور، احناف، امیر صنعانی، البانی رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں۔ (تمام المنة: ص377)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 903