اخبرنا عبد الله بن الحارث، عن ابن جريج، حدثني موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله إذا احب عبدا نادى جبريل فيقول: إن الله احب فلانا فاحبوه، ثم ينادي جبريل اهل السماء إن الله احب فلانا فاحبوه، ثم يوضع له القبول في الارض".أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ فَيَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، ثُمَّ يُنَادِي جِبْرِيلُ أَهْلَ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیواؤں اور مسکینوں کی سرپرستی کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (جنت میں) اس طرح ہوں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب بدءالخلق، باب ذكر الملائكة، رقم: 3209. مسلم، كتاب البروالصلة، باب اذا حب الله عبد حبيه الي عباده، رقم: 2637. مسند احمد: 267/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 782 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 782
فوائد: صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے دشمنی کرتا ہے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: میں فلاں سے دشمنی کرتا ہوں تو بھی اس سے دشمنی کر، پس جبریل بھی اس سے دشمنی کرنے لگ جاتا ہے۔ پھر وہ آسمان والوں میں نداء کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے دشمنی کرتا ہے، تم بھی اس سے دشمنی کرو، پھر اس کے لیے زمین میں دشمنی رکھ دی جاتی ہے۔ (یعنی اہل زمین بھی اس سے بغض وعناد رکھتے ہیں)“(مسلم، کتاب البروالصلة: 2737) مذکورہ بالا حدیث سے اللہ ذوالجلال کے کلام کرنے کا اثبات ہوتا ہے اور ان لوگوں کا رد بھی ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ذوالجلال کے کلام میں حروف نہیں ہیں۔ اللہ ذوالجلال کلام کرتے ہیں، لیکن کس طرح کرتے ہیں ﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَـْیٌٔ﴾ اور مذکورہ بالا حدیث میں عند اللہ محبوبیت کا صلہ بیان کیا گیا ہے، صرف عند اللہ محبوب نہیں، بلکہ آسمان اور زمین میں رہنے والوں کا ایسا آدمی محبوب بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ذوالجلال کا محبوب کیسے بنا جاسکتا ہے اس کی وضاحت قرآن مجید میں ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾(آل عمران:31).... ”کہہ دیجیے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔“ معلوم ہوا اللہ ذوالجلال کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ اتباع رسول ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر پر (امیر بنا کر) بھیجا۔ پس وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا اور اپنی قراء ت (ہر رکعت میں) قل ہو اللہ احد پر ختم کرتا۔ جب یہ (لشکر والے) لوٹ کر آئے تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا، آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو: یہ ایسا کیوں کرتا ہے؟“ چنانچہ انھوں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ (اس میں) رحمن کی صفت ہے، اس لیے میں اسے (زیادہ) پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سن کر) فرمایا: ”اس کو بتلادو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت فرماتا ہے۔ “(بخاري، رقم: 7375‘ مسلم، رقم: 813) معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا سورت کی کثرت سے تلاوت کرنے سے بھی اللہ ذوالجلال کی محبت حاصل ہوتی ہے۔