وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ايما امراة نكحت على صداق او حباء او عدة قبل عصمة النكاح، فهو لها، وما كان بعد عصمة النكاح، فهو لمن اعطيه، واحق ما اكرم الرجل عليه ابنته او اخته» . رواه احمد والاربعة إلا الترمذي.وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أيما امرأة نكحت على صداق أو حباء أو عدة قبل عصمة النكاح، فهو لها، وما كان بعد عصمة النكاح، فهو لمن أعطيه، وأحق ما أكرم الرجل عليه ابنته أو أخته» . رواه أحمد والأربعة إلا الترمذي.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس عورت کو مہر عطیہ یا نکاح سے پہلے کسی وعدہ کی بنا پر بیاہ دیا جائے تو یہ اس عورت کا حق ہے اور جو عطیہ نکاح کے بعد دیا جائے تو وہ اسی کا ہے جسے دیا جائے اور وہ چیز جس کی وجہ سے مرد زیادہ تکریم کا مستحق ہے اس کی بیٹی یا اس کی بہن ہے۔“ اسے احمد اور ترمذی کے علاوہ چاروں نے روایت کیا ہے۔
हज़रत अमरो बिन शोएब रहम अल्लाह ने अपने पिता से, उन्हों ने अपने दादा से रिवायत की है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस औरत को महर, दान या निकाह से पहले किसी वायदे की बिना पर ब्याह दिया जाए तो ये उस औरत का हक़ है और जो दान निकाह के बाद दिया जाए तो वह उसी का है जिसे दिया जाए और वह चीज़ जिस की वजह से मर्द अधिक सम्मान का हक़दार है उस की बेटी या उस की बहन है।” इसे अहमद और त्रिमीज़ी के सिवा चारों ने रिवायत किया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2129، والنسائي، النكاح، حديث:3355، وابن ماجه، النكاح، حديث:1955، وأحمد:2 /182.»
Narrated 'Amr bin Shu'aib on his father's authority from his grandfather:
Allah's Messenger (ﷺ) said: "If any woman marries for a dowry, a gift, or a promise before contracting the marriage, it belongs to her. As for whatever is fixed to her after contracting the marriage, it belongs to whomever it has been given. The most worthy gift a man is honored with is what he gets on account of (the marriage of) his daughter or sister." [Reported by Ahmad and al-Arba'a except at-Tirmidhi].
أيما امرأة نكحت على صداق أو حباء أو عدة قبل عصمة النكاح ، فهو لها ، وما كان بعد عصمة النكاح ، فهو لمن أعطيه ، وأحق ما أكرم الرجل عليه ابنته أو أخته
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 884
تخریج: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئًا، حديث:2129، والنسائي، النكاح، حديث:3355، وابن ماجه، النكاح، حديث:1955، وأحمد:2 /182.»
تشریح: یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر مرد‘ عورت کے ولی کو کچھ مال دے یا اس سے کوئی وعدہ کرے‘ اگر یہ نکاح سے پہلے ہو توپھر ولی اس مال کا مستحق نہیں ہے‘ خواہ ولی نے اس مال کی اپنے لیے شرط لگائی ہو‘ بلکہ عورت ہی اس کا استحقاق رکھتی ہے‘ البتہ اگر نکاح کے بعد کوئی چیز دی گئی ہے تو وہ اسی کا حق ہے جسے وہ دی گئی ہے‘ خواہ وہ عورت کا ولی ہو یا کوئی اور رشتہ دار یا خود وہ عورت ہی ہو۔ اور یہ معاملہ اس عطیہ یا ہدیہ وغیرہ کا ہے جو مہر کے علاوہ ہو۔ رہا مہر کا معاملہ تو وہ بہرصورت عورت ہی کا حق ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 884
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3355
´کھجور کی گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کرانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت سے نکاح مہر پر کیا گیا ہو یا (مہر کے علاوہ) اسے عطیہ دیا گیا ہو یا نکاح سے پہلے عورت کو کسی چیز کے دینے کا وعدہ کیا گیا ہو تو یہ سب چیزیں عورت کا حق ہوں گی (اور وہ پائے گی)۔ اور جو چیزیں نکاح منعقد ہو جانے کے بعد ہوں گی تو وہ جسے دے گا چیز اس کی ہو گی۔ اور آدمی اپنی بیٹی اور بہن کے سبب عزت و اکرام کا مستحق ہے“، (حدیث کے) الفاظ (راوی [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3355]
اردو حاشہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دواستاد ہیں: ہلال بن علاء اور عبداللہ بن محمد بن تمیم۔ بیان کردہ الفاظ عبداللہ کے ہیں۔ (1) نکاح سے قبل جو کچھ تحائف دیے جاتے ہیں‘ وہ عورت کی خاطر ہوتے ہیں‘ لہٰذا وہ عورت کے لیے شمار ہوں گے‘ اگرچہ کسی کو بھی ملیں‘ البتہ نکاح کے بعد چونکہ نئے رشتے قائم ہوجاتے ہیں‘ لہٰذا جسے تحفہ ملے گا‘ اسی کا شمار ہوگا۔ (2) کسی کو بیٹی یا بہن کا نکاح دینا بہت بڑا احسان ہے‘ لہٰذا بیوی کے باپ اور بھائی کا احترام لازماً ہے کیونکہ نکاح کا اختیار انہیں تھا۔ بیوی کے باپ کو تیسرا باپ کہا گیا ہے۔ پہلا حقیقی والد‘ دوسرا استاد اور تیسرا سسر۔ اسی طرح بیوی کی والدہ کا بھی احترام ضروری ہے۔ اسی بنا پر تو اس سے نکاح حرام کردیا گیا اور اس سے پردہ نہیں رکھا گیا۔ (3) ظاہراً اس حدیث کا باب سے کوئی تعلق نہیں بنتا‘ الا یہ کہ کہا جائے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کی کوئی مقدار نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3355