وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ايما امراة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له» . اخرجه الاربعة إلا النسائي، وصححه ابو عوانة وابن حبان والحاكم.وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له» . أخرجه الأربعة إلا النسائي، وصححه أبو عوانة وابن حبان والحاكم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی خاتون نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ پھر اگر شوہر نے اس سے دخول (مباشرت) کیا ہے تو اس عورت کیلئے حق مہر ہے، اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کے بدلہ میں۔ پھر اگر اولیاء میں جھگڑا ہو جائے تو پھر جس کا کوئی ولی نہیں اس کا ولی حاکم وقت ہے۔“ نسائی کے علاوہ اسے چاروں نے روایت کیا ہے، ابو عوانہ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस किसी औरत ने अपने वली की अनुमति के बिना निकाह किया, उस का निकाह झूठ है। फिर अगर पति ने उस से संभोग किया है तो उस औरत के लिये हक़ महर है, उस के गुप्त अंग को हलाल करने के बदले में। फिर अगर ओलिया में झगड़ा हो जाए तो फिर जिस का कोई वली नहीं उस का वली उस समय का प्रधान है।” निसाई के सिवा इसे चारों ने रिवायत किया है, अबु उवानह, इब्न हब्बान और हाकिम ने सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2083، والترمذي، النكاح، حديث:1102، وابن ماجه،النكاح، حديث:1879، وأحمد:6 /166، وابن حبان (الإحسان):6 /151، حديث:4063، والحاكم:2 /168.»
Narrated 'Aishah (RA):
Allah's Messenger (ﷺ) said: "If anyone married without the consent of her guardian, her marriage is invalid. If there is cohabitation, she is entitled to the dowry, due to the sexual intercourse made lawful with her. If there is a dispute (between her guardian), the ruler is the guardian of one who has no guardian." [Reported by al-Arba'a except an-Nasa'i. Abu 'Awanah, Ibn Hibban and al-Hakim graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 836
تخریج: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2083، والترمذي، النكاح، حديث:1102، وابن ماجه،النكاح، حديث:1879، وأحمد:6 /166، وابن حبان (الإحسان):6 /151، حديث:4063، والحاكم:2 /168.»
تشریح: 1. یہ حدیث ولایت کو شرط قرار دینے کی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح کسی صورت میں نہیں کر سکتی۔ جمہور کا یہی موقف ہے اور ان کی تائید اس مضمون کی احادیث سے ہوتی ہے۔ سبل السلام میں ہے کہ امام حاکم فرماتے ہیں: اس مسئلے کے بارے میں ازواج مطہرات‘ حضرت عائشہ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سے صحیح روایات منقول ہیں‘ نیز فرماتے ہیں کہ اس مضمون سے متعلقہ روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں‘ پھر اس سلسلے میں انھوں نے تیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شمار کیا ہے۔ (سبل السلام)2. احناف ولی کی شرط کے سرے سے قائل ہی نہیں‘ جب عورت اپنے کفو سے شادی کرے۔ انھوں نے اس مسئلے کو بیع پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے‘ مگر یہ کسے معلوم نہیں کہ قیاس کی نص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ ان احادیث میں سے بعض پر انھوں (احناف) نے بے جا گفتگو اور کلام کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے‘ جنھیں دراصل اس فن میں کوئی بصیرت حاصل نہیں‘ ان احادیث پر بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 836
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1879
´بغیر ولی کے نکاح جائز نہ ہونے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت کا نکاح اس کے ولی نے نہ کیا ہو، تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اگر مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے، اور اگر ولی اختلاف کریں تو حاکم اس کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1879]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نکاح میں جس طرح لڑکی کی رضامندی ضروری ہے، اسی طرح اس کے سرپرست کی اجازت بھی ضروری ہے جیسے کہ حدیث 1870 میں بھی اشارہ ہے۔
(2) ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً غیر قانونی ہے لہٰذا اگر سرپرست اجازت دینے سے انکار کر دے تو میاں بیوی میں جدائی کرا دی جائے گی۔
(3) مقاربت کے بعد جدائی ہونے کی صورت میں مرد کے ذمے پورا حق مہر ادا کرنا لازمی ہو گا۔
(4) اسلامی سلطنت میں بادشاہ کو نکاح کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح بادشاہ کے نائب مقامی حکام بھی یہ حق رکھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس قسم کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں۔ پنچایت میں بھی یہ معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔
(5) اگر کوئی بچی لاوارث ہو اور اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو جو سرپرست کے طور پر اس کے مفادات کا خیال کر سکے تو اس صورت میں بھی اسلامی سطلنت کو سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
(6) مسئلہ ولایت نکاح کی مزید تحقیق و تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب ”مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں“ از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1879