تخریج: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب قول الله تعالي:(وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله)، حديث:1468، ومسلم، الزكاة، باب في تقديم الزكاة ومنعها، حديث:983.»
تشریح:
1. سبل السلام میں ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز پر زکاۃ فرض ہوتی ہے اسے وقف کرنا صحیح ہے بایں طور کہ اس کی زکاۃ سے آلات حرب و ضرب جہاد فی سبیل اللہ کے لیے حاصل کیے جائیں۔
2. اور یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ساز و سامان اور حیوان کو بھی وقف کرنا درست ہے‘ اس لیے کہ
«أَعْتَاد» کی تفسیر میں گھوڑے بھی آتے ہیں۔
3. اور یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ زکاۃ کو آٹھ مصارف زکاۃ میں سے صرف ایک پر بھی خرچ کرنا جائز ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت خالد رضی اللہ عنہ» ابوسلیمان ان کی کنیت ہے۔
سلسلۂ نسب یوں ہے: خالد بن ولید بن مغیرہ مخزومی قریشی۔
ان کی والدہ کا نام عصماء تھا اور انھی کو لبابہ صغریٰ بھی کہا گیا ہے۔
یہ حارث کی بیٹی اور ام فضل
(زوجۂ عباس رضی اللہ عنہا) کی چھوٹی بہن تھی۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے پہلے ۸ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے ۵ یا ۶ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
فتح مکہ‘ غزوئہ حنین اور تبوک میں حاضر ہوئے اور غزوئہ موتہ کے روز ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سیف اللہ کا لقب عنایت فرمایا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتنۂ ارتداد کے موقع پر انھیں عامل مقرر فرمایا۔
اس کے بعد اہل فارس سے نبرد آزما ہوئے۔
پھر انھیں شام کی طرف بھیجا۔
انھوں نے شام کا اکثر علاقہ فتح کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انھیں معزول کرنے تک فوج کے قائد رہے۔
معزولی کے بعد حمص میں جاگزیں ہوگئے۔
تادم آخر یہیں قیام پذیر رہے۔
۲۱ہجری میں وفات پائی اور حمص سے ایک میل کے فاصلے پر واقع ایک بستی میں انھیں دفن کیا گیا۔