بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر

بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
روزے کے مسائل
रोज़ों के नियम
1. (أحاديث في الصيام)
1. (روزے کے متعلق احادیث)
१. “ रोज़ा ( उपवास ) के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 536
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن سلمان بن عامر الضبي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا افطر احدكم فليفطر على تمر فإن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور» . رواه الخمسة وصححه ابن خزيمة وابن حبان والحاكموعن سلمان بن عامر الضبي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور» . رواه الخمسة وصححه ابن خزيمة وابن حبان والحاكم
سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے کھجور سے افطار کرنا چاہیئے۔ پھر اگر کھجور دستیاب نہ ہو سکے تو پانی سے افطار کر لے اس لئے کہ وہ پاک ہے۔
اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत सलमान बिन अमीर रज़िअल्लाहुअन्ह नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से रिवायत करते हैं कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जब तुम में से कोई रोज़ा इफ़तार करे तो उसे खजूर से इफ़तार करना चाहिए । फिर अगर खजूर नहीं मिले तो पानी से इफ़तार कर ले इस लिए कि वह पवित्र है ।”
इसे पांचों ने रिवायत किया है । इब्न ख़ुज़ैमा, इब्न हब्बान और हाकिम ने इसे सहीह ठहराया है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصوم، باب ما يفطر عليه، حديث:2355، والترمذي، الزكاة، حديث:658، وابن ماجه، الصيام، حديث:1699، والنسائي في الكبرٰي:2 /254، حديث:3319 وغيره، وأحمد:4 /213، 214، وابن خزيمة:3 /278، حديث:2067، وابن حبان(الإحسان):5 /210، حديث:3505، والحاكم:1 /432.»

Sulaiman bin ’Amir Ad-Dabbi (RAA) narrated that The Messenger of Allah (ﷺ) said: “When one of you is breaking his fast, he should eat some dates. If dates are not available, then break it with some water, for water is purifying.’’ Related by the five lmams. Ibn Khuzaimah, Ibn Hibban and al-Hakim graded it as Sahih.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   جامع الترمذي695سلمان بن عامرإذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فمن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور
   جامع الترمذي658سلمان بن عامرإذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فإن لم يجد تمرا فالماء فإنه طهور الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة
   سنن أبي داود2355سلمان بن عامرإذا كان أحدكم صائما فليفطر على التمر فإن لم يجد التمر فعلى الماء فإن الماء طهور
   سنن ابن ماجه1699سلمان بن عامرإذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإن لم يجد فليفطر على الماء فإنه طهور
   بلوغ المرام536سلمان بن عامر‏‏‏‏إذا افطر احدكم فليفطر على تمر فإن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور
   مسندالحميدي843سلمان بن عامرإذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر، فإنه بركة، فإن لم يكن، فماء فإنه طهور

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 536 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 536  
فوائد و مسائل 536:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو کھجور سے افطار کرنا چاہیے کیونکہ کھجور مقوئ معدہ مقوئ اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوری کا بدل ہے۔ اگر کھجور مہیا نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر تازہ نہ ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے۔ اگر یہ بھی نہ ملتی تو پھر چند گھونٹ پانی سے روزہ افطار فرمالیتے تھے۔ [جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء ما يستحب عليه الأِفطار، حديث: 696]

➌ امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کھجور یا پانی سے روزہ افطار کرنے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت کیساتھ کمالِ شفقت اور خیر خواہی کا اظہار ہے، کیونکہ خالی معدے کی حالت میں میٹھی چیز کھانا معدے کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کے ساتھ باقی اعضاء بھی قوت پکڑتے ہیں۔ خصوصًا قوتِ بینائی کو بیحد فائدہ پہنچتا ہے۔ اس طرح پانی کا فائدہ یہ ہے کہ روزے کیساتھ جگر میں خشکی پیدا ہو جاتی ہے، اگر اسے پانی کیساتھ رطوبت پہنچ جائے تو وہ بعد میں کھائی جانے والی غذا سے بہت فائدہ حاصل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کھجور اور پانی کی خاصیات کو امراضِ دل کے ماہرین ہی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دل کی درستی میں انکا کسقدر عمل دخل ہے۔ [زادالمعاد: 160/1]

راوئ حدیث:
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انکا سلسلہ نسب یوں ہے: سلمان بن عامر بن اویس بن حجر بن عمرو بن حارث الضبی، مشہور صحابی ہیں۔ بصرہ میں رہائش پذیر رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں یہ صاحب عمر رسیدہ تھے۔ خلافتِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک زندہ رہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جنگِ جمل میں شہید ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر سو برس تھی۔ ایک قول کے مطابق ان کے سوا کوئی بھی صحابی ضبی نہیں۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 536   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2355  
´افطار کس چیز سے کیا جائے؟`
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو اسے کھجور ۱؎ سے روزہ افطار کرنا چاہیئے اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے کر لے اس لیے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2355]
فوائد ومسائل:
(1) یہ امر ارشاد و ترغیب ہے نہ کہ امر وجوب۔
اس لیے کسی بھی طعام و مشروب سے روزہ افطار کیا جا سکتا ہے۔
(2) مسلمانوں کو چاہیے کہ کجھور جیسے مبارک پھل کو اپنے دسترخوان کا جزو بنانے کا اہتمام کریں۔
یہ نعمت لذت و شیرینی آمیز پھل ہی نہیں، بلکہ طعام کا قائم مقام بھی ہے۔
تہذیب مغرب نے سیب کو بہت شہرت دی ہے جو یقینا اللہ کی عظیم پاکیزہ نعمت ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کجھور کو جو فضیلت دی ہے وہ کسی اور پھل کو حاصل نہیں، اسی لیے چاہیے کہ اس کی کاشت بھی بڑھائی جائے۔
(3) مسلمان جہاں کھانے پینے اور پہننے کی ظاہری سنتوں کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں انہیں چاہیے کہ عقیدہ و عمل کے معنوی امور کا اس سے بڑھ کر اہتمام کریں۔
(34) اس حدیث کی اسنادی مباحث کے لیے دیکھئے، ارواء الغلیل، حدیث:922۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2355   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1699  
´کن چیزوں سے افطار مستحب ہے؟`
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، اور اگر اسے کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرے، اس لیے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1699]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تمر خشک کھجور کو کہتے ہیں جا مع التر مذی کی دوسری حدیث میں تمر خشک کھجو ر کے علاوہ رطب تر کھجور سے روزہ کھولنا بھی مذکو ر ہے۔ دیکھیے: (جامع ترمذي، الصوم، حدیث: 696)

(2)
کھجور سے روزہ کھولنا اس لئے افضل ہے کہ یہ بابرکت پھل ہے اور پانی کا تعلق طہارت اور پا کیزگی سے ہے روزہ روحانی پاکیزگی کا باعث ہے اور پانی ظاہری پاکیزگی کا، اس مناسبت سے پانی سے روزہ کھولنا بھی مستحب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1699   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 658  
´رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا بیان۔`
سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے، نیز فرمایا: مسکین پر صدقہ، صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 658]
اردو حاشہ:
1؎:
جس میں رباب کے واسطے کا ذکر ہے۔

نوٹ:

نیز دیکھئے رقم: 695 پہلا فقرہ روزے سے متعلق (ضعیف) ہے،
سند میں رباب،
أم الرائح لین الحدیث ہیں،
اور صدقہ سے متعلق دوسرا فقرہ صحیح ہے،
تراجع الالبانی: 132،
والسراج المنیر: 1873، 1874)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 658   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 695  
´کس چیز سے روزہ کھولنا مستحب ہے؟`
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے (کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 695]
اردو حاشہ:
1؎:
اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے،
مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ،
مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم ﷺ تازہ کھجورسے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔
ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے،
جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔

نوٹ:

(الرباب ام الرائح لین الحدیث ہیں،
اس حدیث کی تصحیح ترمذی کے علاوہ:
ابن خزیمہ اور ابن حبان نے بھی کی ہے،
البانی نے پہلے اس کی تصحیح کی تھی بعد میں اسے ضعیف الجامع الصغیر میں رکھ دیا (رقم: 369) دیکھئے:
تراجع الألبانی رقم: 132 و ارواء رقم: 922)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 695   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.