وعن عبد الله بن جعفر رضي الله عنهما قال: لما جاء نعي جعفر حين قتل قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد اتاهم ما يشغلهم» . اخرجه الخمسة إلا النسائي.وعن عبد الله بن جعفر رضي الله عنهما قال: لما جاء نعي جعفر حين قتل قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم» . أخرجه الخمسة إلا النسائي.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو۔ ان کو ایسی تکلیف دہ اطلاع ملی ہے جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گی۔“ نسائی کے علاوہ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔
हज़रत अब्दुल्लाह बिन जाफ़र रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि जब जाफ़र बिन अबु तालिब रज़िअल्लाहुअन्ह की शहादत की सूचना मिली तो रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जाफ़र के घर वालों के लिए खाना तैयार करो । उन को ऐसी दर्दभरी सूचना मिली है जो उन को खाना पकाने से रोक देगी ।” निसाई के सिवा इसे पांचों ने रिवायत किया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب صفة الطعام لأهل الميت، حديث:3132، والترمذي، الجنائز، حديث:998، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1610، وأحمد:1 /205.»
‘Abdullah Ibn Ja’far (RAA) narrated, ‘When we received the news of Ja’far’s death; when he was killed (in the Battle of Mu’tah), the Prophet(ﷺ) said:
“Prepare some food for the family of Ja’far, for what has befallen them is keeping them preoccupied.” Related by the five lmams except for An-Nasa’i.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 479
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کا کوئی عزیز وفات پا جائے تو انہیں کھانا کھلانا مسنون ہے۔ ➋ ہمسائے کا حق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہے۔ ➌ کھانا صرف میت کے گھر والوں اور ان کے دور سے آئے ہوئے اعزہ و اقرباء کے لیے سنت ہے، باقی محلے دار اور تدفین میں شریک لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ ➍ اہل خانہ کا کھانا پکانا اور ان کے ہاں لوگوں کو جمع ہونا درست نہیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھیے: [مسند احمد: 402/2۔ واسنن ابن ماجه، الجنائز، حديث: 1612] وضاحت: حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان سے دس برس بڑے تھے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہیں قیام پذیر ہوئے۔ نجاشی اور اس کے متبعین نے انھی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، پھر انہوں نے مدینہ بھی ہجرت فرمائی اور خیبر میں اس وقت پہنچے جب یہ فتح ہو چکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: ”مجھے معلوم نہیں کہ جعفر کی آمد پر مجھے زیادہ مسرت ہے یا خیبر کے فتح ہونے پر۔“[المعجم الكبير للطبراني: 108/2] بہت ہی زیادہ سخی انسان تھے۔ ۸ ہجری میں موتہ کے معرکے میں جام شہادت نوش کیا اور جنت بریں کو سدھار گئے۔ اس معرکے میں لشکر اسلام کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ دونوں بازو جنگ میں بدن سے کٹ کر جدا ہو گئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ان کے دونوں بازووں کے بدلے میں ان کے دو پر لگائے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہیں پرواز کرتے پھرتے ہیں۔“[المعجم الكبير للطبراني: 107/3] اسی وجہ سے انہیں جعفر طیار کہا جاتا ہے اور جعفر ذوالجناحین بھی انہی کا لقب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 479
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3132
´اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا۔` عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایک ایسا امر (حادثہ و سانحہ) پیش آ گیا ہے جس نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3132]
فوائد ومسائل: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں۔ کہ اہل میت کے گھر میں تین دن تک کھانا پکانا جائز نہیں۔ لیکن نبی کریمﷺ کا یہ فرمان تو عین وقت کےلئے تھا۔ اسے تین دن تک لمبا کرنا تو شرعا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اس سے اصل مقصود اہل میت سے اظہار ہمدردی تھا۔ محض کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔ اس لئے اس سے استدلال کرکے اہل میت کے گھر کھانا پکانے کو یکسر ممنوع قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ البتہ ایک اور رواج جوعام ہوگیا ہے۔ شرعا محل نظر ہے۔ اور وہ ہے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لئے کھانا پکانا او دعوت عام کا اہتمام کرنا۔ جنازے میں شریک ہونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو قریبی اعزہ۔ جو دوردراز کے علاقوں میں۔ (مختلف شہروں) سےآتے ہیں۔ وہ فورا ً واپس نہیں جا سکتے۔ اور میت سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا فورا واپس چلے جانا مناسب بھی نہیں ہوتا۔ دوسری قسم کے لوگ جو تعداد میں عام طور پر قریبی اعزہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جو دوست احباب اہل محلہ واہل مسلک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی شرکت نماز جنازہ یا زیادہ سے زیادہ تدفین تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اول الزکر قسم کے لوگوں کے لئے کھانا تیارکرنا تو یقینا جائز ہے۔ کیوکہ وہ میت کے نہایت قریبی ہوتے ہیں۔ اور ان کا قیام بھی اہل میت کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ثانی الذکر لوگوں کےلئے بھی کھانا تیار کرنا ان کو دعوتوں کی طرح کھانا کھلانا یا انہیں کھانے پر مجبور کرنا یا دعوت عام کی منادی کرنا تکلیف مالایطاق ہے۔ جو شرعا محل نظر ہے۔ یہ طریقہ اصحاب ثروت نے شروع کیا ہے جن کے لئے چند دیگیں پکا لینا کوئی مشکل امرنہیں۔ لیکن اس رواج نے کم وسائل والے لوگوں کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بنا بریں اس موقع پر تمام شرکائے جنازہ کےلئے دعوت عام کا اہمتام کرنا قابل اصلاح ہے، کھانے کا یہ اہتمام صرف قریبی اعزہ کےلئے ہونا چاہیے۔ دوسرو ں کےلئے اس کا اہتمام کیا جائے۔ نہ دوسرے لوگ اس میں شریک ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3132
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1610
´میت کے گھر والوں کے یہاں کھانا بھیجنے کا بیان۔` عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جعفر کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آ پڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1610]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غزوہ موتہ عیسائی رومی سلطنت کے خلاف جمادی الاولیٰ 8 ہجری (اگست یا ستمبر 629ء) میں پیش آیا۔
(2) اس جنگ میں مسلمانوں کے تین عظیم قائد حضرت زید بن حارثہ حضرت جعفر طیار بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ آخر کار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں نے عیسایئوں کو واپس ہونے پر مجبور کردیا۔ اور خود مسلمان بھی بڑی حکمت سے کام لے کر سلامتی سے واپس آگئے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الرحیق المختوم، ص: 526)
(3) میت کے اقارب اور ہمسایئوں کا فرض ہے کہ میت کے گھر والوں کےلئے کھانا تیار کریں۔ یہ نہیں کےمیت والوں کے ہاں خود مہمان بن کر کھانے کےلئے جمع ہوجایئں۔ میت والوں کے ہاں جمع ہونے کی ممانعت حدیث (1612) میں آرہی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1610
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 998
´میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے کا بیان۔` عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی ۱؎ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 998]
اردو حاشہ: 1؎: جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت 8ھ میں غزوئہ موتہ میں ہوئی تھی، ان کی موت یقینا سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج وغم لے کرآئی۔ 2؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اورپڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ 'اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگرآج کے مبتدعین نے معاملہ اُلٹ دیا، تیجا، قُل، ساتویں اورچالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجادکرکے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتاہے، العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 998
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:547
547- سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب جعفر بن طالب رضی اللہ عنہ کے انتقال کی اطلاع آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو، کیونکہ انہیں ایسی صورتحال کا سامانا کرنا پڑا ہے، جس نے انہیں مشغول کردیا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:547]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا اہتمام دوسرے ساتھی کریں کیونکہ ان کو غم پہنچا ہوتا ہے، اور وہ میت کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے گھر والوں کو صرف ایک وقت کا کھانا کھلانا مسنون ہے۔ ہمارے ہاں تین دن کا رواج ہے جو کہ غیر مسنون ہے۔ قرآن وحدیث میں تین دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ چند کبار علماۓ کرام کے فتاویٰ جات ملاحظہ فرمائیں: صاحب تحفۃ الاحوذی مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر کے اہل و عیال کے واسطے کھانا بناؤ، اس واسطے کہ ان کو ایسی خبر ملی ہے، جو ان کو کھانا بنانے سے روکتی ہے۔ [ابوداود 3132 الترمذي: 998 ابـن مـاجه 1610 صـححه ابن السكن و حسنه الترمذي كذا فى النيل: 97/4] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرابت مند اور پڑوسیوں کو چاہیے کہ موت کے دن کھانا پکا کر اہل میت کے گھر بھیجیں۔ میں کہتا ہوں کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے فقط ایک وقت یا دو وقت کھانا بھیجنا ثابت ہوتا ہے اور تین دن تک کھانا بھیجنا نہ اس حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی دوسری حدیث سے۔ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں مجتمع ہونے اور کھانا بنانے اور کھانے کو نیاحت کی ایک قسم سمجھتے تھے، یعنی جیسے میت پر نوحہ کرنا حرام ہے، اسی طرح دفن کے بعد اہل میت کے یہاں لوگوں کا جمع ہونا اور کھانا کھانا بھی حرام ہے۔ [مقالات محدث مباركپوري رحمہ اللہ:ص 331 تا 333] دوحہ قطر کے قاضی شیخ أحمد بن حجر البوطا می فرماتے ہیں: میت کے گھر والوں متعلقین کا تعزیت وسوگ کے لیے مجلس منعقد کرنا اور تعزیت کے لیے آنے والوں کے واسطے تین دنوں تک کھانا تیار کرنا بدعت ہے۔ (بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم ص 275) مفتی اعظم پاکستان حافظ ثناء اللہ مدنی ا رحمہ اللہ (شارح سنن الترمذی و صحیح البخاری) لکھتے ہیں: صرف میت کے گھر والوں کو وقتی طور پر کھانا کھلانے کا جواز ہے۔ ہاں البتہ اہل میت کے ساتھ شرکائے تدفین کا کھانا تیار کرنا نا جائز ہے۔ حدیث جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ میں ہے میت کی تدفین کے بعد اہل میت کے ہاں جمع رہنا اور کھانا تیار کرنا بھی ہمارے (صحابہ کے) نزد یک نوحہ میں سے ہے۔ (جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔)[فتاوي ثنائيه مدنيه: 179/3ء 180] مفتی امین اللہ پشاوری رحمہ اللہ نے کئی وجوہات کی بنا پر اسے بدعت قرار دیا ہے۔ [فتاوي الدين الخالص: 316/7- 317]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 547