وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: مر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بقبور المدينة فاقبل عليهم بوجهه فقال: «السلام عليكم يا اهل القبور يغفر الله لنا ولكم، انتم سلفنا، ونحن بالاثر» . رواه الترمذي وقال: حسن.وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: مر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بقبور المدينة فأقبل عليهم بوجهه فقال: «السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم، أنتم سلفنا، ونحن بالأثر» . رواه الترمذي وقال: حسن.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مدینہ کے قبرستان سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا «السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم، أنتم سلفنا، ونحن بالأثر»”اے اہل قبور! تم پر سلام ہو! اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے! تم ہمارے پیش رو ہو ہم تمہارے پیچھے چلے آ رہے ہیں۔“ اسے ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے۔
हज़रत इब्न अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का गुज़र मदीने के क़ब्रिस्तान से हुआ । आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उन की तरफ़ ध्यान किया और फ़रमाया ! « السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم, أنتم سلفنا, ونحن بالأثر » “ऐ क़ब्रों में रहने वालों ! तुम पर सलाम हो ! अल्लाह तुम्हें और हमें क्षमा करदे ! तुम हमारे आगे जाने वलों में से हो हम तुम्हारे पीछे चले आ रहे हैं ।” इसे त्रिमीज़ी ने रिवायत किया और हसन ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما يقول الرجل إذا دخل المقابر، حديث:1053. * قابوس فيه لين (تقريب).»
Ibn ‘Abbas (RAA) narrated, ‘Once the Messenger of Allah (ﷺ) passed by some graves in Madinah. He turned his face toward them saying, “Peace be upon you, O dwellers of these graves. May Allah forgive you and us. You have preceded us, and we are following your trail." Related by At-Tirmidhi, who graded it as Hasan.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 481
لغوی تشریح: «أَنْتُمْ سَلَفُنَا» «سلْفُنَا» میں ”سین“ اور ”لام“ دونوں پر فتحہ ہے، یعنی پہلے فوت ہونے والے۔ «وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ» «اثر» میں ”ہمزہ“ اور ”ثا“ پر فتحہ ہے، یعنی ہم تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں اور تمہیں ملنے والے ہیں۔
فائدہ: اصحاب القبور کو سلام، ایک دعائیہ کلام ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے لے سلامتی کی دعا ہوتی ہے، مردوں کی سنانا مقصود نہیں ہوتا، جس طرح خط لکھتے وقت غائب دوست کو مخاطب کر کے السلام علیکم کہا جاتا ہے، اس سے خطاب مقصود نہیں ہوتا بلکہ دعائیہ کلام مقصود ہوتا ہے۔ بعینہ اصحاب القبور کو سلام سنانا مقصود نہیں ہوتا اور نہ وہ سنتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: «وَمَا أَنْتَ بِمُسْمعِ مَّنْ فِي الْقُبُورِ»[الفاطر، 22: 35] یعنی آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 481
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1053
´جب آدمی قبرستان میں داخل ہو تو کیا کہے؟` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا: «السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم أنتم سلفنا ونحن بالأثر»”سلامتی ہو تم پر اے قبر والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔“[سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1053]
اردو حاشہ: نوٹ: (اس کے راوی ”قابوس“ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے صحابہ کی روایت سے یہ حدیث ثابت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1053