عن ابي عامر الاشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ليكونن من امتي اقوام يستحلون الخز والحرير» . رواه ابو داود واصله في البخاري.عن أبي عامر الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الخز والحرير» . رواه أبو داود وأصله في البخاري.
سیدنا ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میری امت میں لازماً کچھ ایسی قومیں ہوں گی جو (زنا) اور ریشم کو حلال سمجھیں گی۔ “ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔
हज़रत अबु आमिर अशअरी रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ’’ मेरी उम्मत में बेशक कुछ ऐसी जातियां होंगी जो (ज़िना) और रेशम को हलाल समझेंगी । ‘‘ इसे अबू दाऊद ने रिवायत किया है और इस की असल बुख़ारी में है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، اللباس، باب ما جاء في الخز، حديث:4039، وأصله في البخاري، الأشربة، باب ما جاء فيمن يسحل الخمر ويسميه بغير اسمه، حديث:5590.»
Narrated Abu 'Aamir al-Ash'ari:
Allah's Messenger (ﷺ) said: "There will be among my followers some people who will consider dultery (al-Hir) and the use of silk (al-Harir) lawful." [Reported by Abu Dawud, and its basic meaning is in al-Bukhari].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 415
تخریج: «أخرجه أبوداود، اللباس، باب ما جاء في الخز، حديث:4039، وأصله في البخاري، الأشربة، باب ما جاء فيمن يسحل الخمر ويسميه بغير اسمه، حديث:5590.»
تشریح: اس حدیث میں دو چیزیں حرام کی گئی ہیں: ایک ریشم کا پہننا‘ دوسرا زنا و بدکاری کرنا۔ ریشم کا لباس زیب تن کرنا آدمی کے اندر رعونت اور کبر و نخوت پیدا کرتا ہے۔ اور یہ متکبرین کا لباس ہے‘ اسی لیے اسے امت کے مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے‘ نیز یہ زینت اور لطافت کا لباس ہے جو مردوں کے برعکس عورتوں کا لباس شمار ہوتا ہے اور مردوں کے لیے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ» ان کا نام عبداللہ بن ہانی یا عبید بن وہب رضی اللہ عنہ ہے۔ شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 415
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4039
´خز (اون اور ریشم سے بنے لباس) پہننے کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں مجھ سے ابوعامر یا ابو مالک نے بیان کیا اور اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو خز اور حریر (ریشم) کو حلال کر لیں گے پھر کچھ اور ذکر کیا، فرمایا: ”ان میں سے کچھ قیامت تک کے لیے بندر بنا دیئے جائیں گے اور کچھ سور۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بیس یا اس سے زیادہ لوگوں نے خز پہنا ہے ان میں سے انس اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4039]
فوائد ومسائل: 1: اس حدیث میں مروی ہے لفظ الخز (خا اور زا دونوں منقوط کے) تین معانی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ خالص ریشم مردوں کے لئے بالاجماع حرام ہے۔ الخزوالحریر کے مابین عطف تفسیر یا نوعیت کے معنی میں ہیں۔ مخلوط یا کسی دوسری نوعیت کا ہوتو اس سے احترازافضل ہے، تاکہ غیر مسلوں اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت ہو۔
2: اس لفظ الخز کی ایک روایت الحر بھی ہے، یعنی حا مکسور اور را دونوں بلانقطہ۔ اس کے معنی ہیں: فرج یعنی عورت کے لئے شرم گاہ، مفہوم یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور ریشم کے لباس کو حلال جانیں گے۔
3: ایسے لوگوں کو مسخ کیا جانا یعنی ان کی شکلوں کا بدل جانا اگر حقیقتا ہو تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہیں اور اگر معنا مراد ہو تو موجودہ حالات میں اباحیت پسند لوگوں میں بندروں اور سؤروں کی خصوصیات مشاہدہ کی جا سکتی ہیں کہ لوگ غیر مسلموں کی نقالی میں بے باک اور بے عزتی اور دیوثیت مین بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4039