وعن ابي جحيفة رضي الله عنه قال: رايت بلالا يؤذن واتتبع فاه ههنا وههنا وإصبعاه في اذنيه. رواه احمد والترمذي وصححه. ولابن ماجه: وجعل إصبعيه في اذنيه. ولابي داود: لوى عنقه لما بلغ حي على الصلاة يمينا وشمالا ولم يستدر. واصله في الصحيحين.وعن أبي جحيفة رضي الله عنه قال: رأيت بلالا يؤذن وأتتبع فاه ههنا وههنا وإصبعاه في أذنيه. رواه أحمد والترمذي وصححه. ولابن ماجه: وجعل إصبعيه في أذنيه. ولأبي داود: لوى عنقه لما بلغ حي على الصلاة يمينا وشمالا ولم يستدر. وأصله في الصحيحين.
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے دیکھا کہ وہ اپنا چہرہ، ادھر ادھر پھیرتے تھے۔ اس وقت ان کی دونوں انگلیاں (انگشت ہائے شہادت) ان کے کانوں میں تھیں۔ احمد اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کر لیں اور ابوداؤد میں ہے کہ جب «حي على الصلاة» کہتے تو اپنے دائیں بائیں ذرا رخ موڑ لیتے بالکل گھومتے نہیں تھے۔ اس کی اصل صحیحین میں ہے۔
हज़रत अबु जुहैफ़ा रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि मैं ने बिलाल रज़ि अल्लाहु अन्ह को अज़ान देते हुए देखा कि वह अपना चेहरा, इधर उधर फेरते थे। उस समय उन की दोनों उँगलियाँ (शहादत की उँगलियाँ) उन के कानों में थीं । अहमद और त्रिमीज़ी ने इसे रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे सहीह ठहराया है। इब्न माजा की रिवायत में है कि उन्हों ने अपनी उँगलियाँ अपने कानों में डाल लीं और अबू दाऊद में है कि जब “हई अलस्सलाह” « حي على الصلاة » कहते तो अपने दाएँ बाएँ ज़रा चेहरा मोड़ लेते बिलकुल घूमते नहीं थे। इस की असल सहीहेन में है।
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في إدخال الإصبع في الأذن عند الأذان، حديث:197، وأحمد:4 /308، 309، وأصله في الصحيحين، البخاري، الأذان، حديث:634، ومسلم، الصلاة، حديث:503، وابن ماجه، الصلاة، حديث:711، وأبوداود، الصلاة، حديث:520.»
Narrated Abu Juhaifa (RA):
I saw Bilal calling for prayer and I would follow (looking at) his mouth (as he turned it) this (right) side and that (left) side with his fingers in his ears. [Reported by Ahmad and at-Tirmidhi who graded it Sahih (authentic)].
In a narration of Ibn Majah - 'and he put his fingers in his ears'.
And also a narration of Abu Dawud - 'he turned his neck to the right and left when he reached Haiya 'alas-Salah (Come to the prayer) and did not turn his body'.
And its basic meaning is in Sahihain (al-Bukhari and Muslim).
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 147
� لغوی تشریح: «أَتَتَبَّعُ فَاهُ» «تَتَبُّع» باب تفعیل سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں ان کے چہرے کی طرف نظریں لگائے ہوئے تھا اور ان کے منہ کا بغور ملاحظہ کر رہا تھا۔ «هٰهُنَا» دائیں جانب۔ «وَهٰهُنَا» اور بائیں جانب «لَوّٰي» «تَلْوِيَة» سے ہے جو باب تفعیل سے ہے، یعنی موڑا۔ «وَلَمْ يَسْتَدِرُ» «اِسْتَدَارَة» سے ہے۔ اس کے معنی ہیں: گھومنا، یعنی اپنے جسم کو انہوں نے نہیں گھمایا۔
فوائد و مسائل: ➊ اذان قبلہ رخ کھڑے ہو کر کہنا مسنون ہے۔ اسی طرح «حَيَّ عَلَي الصَّلٰوةِ» اور «حَيَّ عَلَي الْفَلَاحِ» کہتے وقت دائیں بائیں چہرے کو پھیرنا بھی مسنون ہے۔ ➋ اذان کہتے ہوئے کانوں میں انگلیاں داخل کرنے کے تین فائدے ہیں: کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے آواز بلند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بہرہ آدمی مؤذن کو ایسی حالت میں دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ نماز کے لیے اذان دی جا رہی ہے، نیز دوسروں کی آواز کے اختلاط سے مؤذن محفوظ رہتا ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا أبوجُحیفہ رضی اللہ عنہ) أبوجُحیفہ کنیت ہے۔ وہب بن عبداللہ سوائی نام ہے۔ جُحیفہ میں ”جیم“ پر ضمہ ہے۔ یہ تصغیر ہے۔ ”جیم“”حا“ سے پہلے ہے۔ سوائی میں ”سین“ پر ضمہ ہے۔ سوائی عامری مشہور ہیں۔ صغار صحانہ میں شمار کیے گئے ہیں۔ کوفے میں سکونت اختیار کی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بیت المال پر عامل مقرر کیا۔ ان کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفے میں 74 ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 147
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 520
´اذان میں مؤذن دائیں بائیں گھومے اس کے حکم کا بیان۔` ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک لال خیمہ میں تھے، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے پھر اذان دی، میں انہیں اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرتے دیکھ رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ یمنی قطری چادروں ۱؎ سے بنے سرخ جوڑے پہنے ہوئے تھے، موسی بن اسماعیل اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ابوحجیفہ نے کہا: میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ابطح کی طرف نکلے پھر اذان دی، جب «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے ۲؎، پھر وہ اندر گئے اور نیزہ نکالا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 520]
520۔ اردو حاشیہ: ➊ موذن کا قبلہ رخ ہونا مستحب ہے۔ اور جب وہ «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچے تو دایئں اور بایئں جانب منہ کر کے یہ کلمات کہے۔ ➋ «حله» اس لباس کو کہتے ہیں۔ جس میں چاد ر اور تہبند دونوں کپڑے ایک ہی جنس کے ہوں۔ ➌ سرخی رنگ کے لباس کی عمومی طور پر نہی وار د ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہنا ہے تو شارحین اس کی بابت یہ فرماتے ہیں کہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ «والله أعلم» ➍ ابطح مکہ میں صفا مروہ کی طرف آنے والے راستے کو کہتے ہیں۔ ➎ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کے الفاظ ”اور خود پورے نہیں گھومے“ کو شاذ بلکہ منکر قرار دیا ہے۔ [مفصل صحيح سنن أبو داود للألباني، حديث: نمبر 533] اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گردن کے گھومنے کے ساتھ اگر جسم بھی گھوم جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 520
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5380
´لال خیموں کے استعمال کا بیان۔` ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ ایک لال خیمے میں تھے اور آپ کے پاس تھوڑے سے لوگ بیٹھے تھے، اتنے میں آپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے اذان دینی شروع کی، تو اپنا منہ اِدھر اُدھر کرنے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5380]
اردو حاشہ: (1) سرخ رنگ کا بلکہ کسی بھی رنگ کا خیمہ لگانا جائز ہے۔ (2)”ادھر ادھر“ یعنی حيَّ على الصلاةِ، حيَّ على الفلاحِ کہتے وقت دائیں بائیں کرتے تھے نہ کہ ساری اذان میں۔ (3) جس طرح خیمہ سرخ ہو سکتا ہے، اس طرح عمارت بھی سرخ ہو سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5380
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:916
916-عون بن ابوجحیفہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر آئے۔ راوی کہتے ہیں: لوگ تیزی سے ان کی طرف لپکے۔ اس میں سے کچھ پانی مجھے بھی ملا۔ میں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔ راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ گاڑا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی، جبکہ کتے، خواتین، گدھے اس نیزے کے دوسری طرف سے گزررہے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:916]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، سبحان اللہ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز پڑھتے وقت سترے کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ گھر ہو یا مسجد، بیت اللہ ہو یا صحرا۔ سترے کے آگے سے ہر کوئی گزرسکتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 915