بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر

بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
متفرق مضامین کی احادیث
विभिन्न विषयों के बारे में हदीसें
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
४. “ बुरे अख़लाक़ और आदतों से डराना ”
حدیث نمبر: 1295
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏خصلتان لا يجتمعان في مؤمن: البخل وسوء الخلق» ‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وفي سنده ضعف.وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏خصلتان لا يجتمعان في مؤمن: البخل وسوء الخلق» ‏‏‏‏ أخرجه الترمذي وفي سنده ضعف.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصلتیں ایسی ہیں جو کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں بخل اور برا اخلاق۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے۔
हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ दो आदतें ऐसी हैं जो किसी मोमिन में एक साथ नहीं हो सकतीं कंजूसी और बुरा अख़्लाक़।”
इसे त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और इस की सनद में कमज़ोरी है।

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في البخل، حديث:1962.* صدقة بن موسي ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة حفظه.»

Abu Sa'id al-Khudri (RAA), narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “There are two characteristics which are not combined in a believer; miserliness and bad morals.” Related by At-Tirmidhi with a weakness in its chain of narrators.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: ضعيف

   جامع الترمذي2684عبد الرحمن بن صخرخصلتان لا تجتمعان في منافق حسن سمت فقه في الدين
   مشكوة المصابيح219عبد الرحمن بن صخرخصلتان لا تجتمعان في منافق: حسن سمت ولا فقه في الدين
   بلوغ المرام1295عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏خصلتان لا يجتمعان في مؤمن: البخل وسوء الخلق

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1295 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1295  
تخریج:
«أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في البخل، حديث:1962.* صدقة بن موسي ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة حفظه.»
تشریح:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم بخل اور برے اخلاق کی مذمت اور قباحت دیگر دلائل کی رو سے واضح ہے۔
بنابریں ان اعمال قبیحہ سے بھی بچنا ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1295   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1295  
تخريج:
اس کی سند میں کچھ ضعف ہے۔
[ترمذي 2684]،
[الادب المفرد للبخاري 282]
سند اس طرح ہے «عن صدقة بن موسيٰ عن مالك بن دينار عن عبد الله بن غالب عن ابي سعيد» مرفوعاً
ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صدقہ بن موسیٰ کے علاوہ کسی سے نہیں جانتے۔
شیخ البانی نے فرمایا: وہ اپنے سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
مناوی نے فیض القدیر میں فرمایا کہ ذہبی نے کہا ہے صدقة ضعیف ہے اسے ابن معین وغیرہ نے ضعیف کہا ہے،
اور منذری نے فرمایا ہے: وہ ضعیف ہے،
اور حافظ نے تقریب میں فرمایا: «صدوق له أوهام» انتہیٰ دیکھئے: [تحفة الاشراف 478/3]
فوائد:
حدیث کی سند میں اگرچہ کچھ ضعف ہے مگر بخل اور بدخلقی کی مذمت میں کئی آیات و احادیث آئی ہیں اور انہیں کفار کے اوصاف میں شمار کیا گیا ہے۔ بخل کی مذمت میں آیات:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ٭ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا» [4-النساء:36]
یقیناًً اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا فخر کرنے والا ہو۔ وہ جو بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور الله تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اور فرمایا:
«أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ٭ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ٭ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ» [107-الماعون:1]
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے تو یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور (خود کھلانا تو دور ہے) مسکین کو کھلانے پر رغبت (بھی) نہیں دلاتا۔
اور جہنمیوں کے بیان میں جس میں انہوں نے اپنے جنتی ہونے کے اسباب بیان کئے ذکر فرمايا:
«‏‏‏‏قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ٭ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ» [74-المدثر:43]
وہ کہیں گے ہم نمازیوں سے نہیں تھے اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے۔
اور فرمایا:
«وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ٭ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ» [82-الإنفطار:8]
اور جس نے بخل کیا اور بےپروائی کی اور جنت کو بھلایا ہم اسے مشکل کی طرف جانے کی آسانی دیں گے۔
آپ دیکھیں ان تمام آیات میں بخل کی صفت کفار کے ضمن میں ہی بیان ہو رہی ہے۔
بدخلقی کی مذمت:
ایسی خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہو جائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سرزد ہوتی رہیں خلق کہلاتی ہیں۔ خصوصا جن عادات کا تعلق ایک دوسرے سے برتاؤ کے ساتھ ہو۔ اچھی ہوں تو حسن الخلق اور بری ہوں سوء الخلق۔ سورة القلم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:
«وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ» [68-القلم:4]
آپ عظیم خلق کے مالک ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: «كان خلقه القرآن» آپ کا خلق قرآن تھا۔ [مسند احمد 91/6]
یعنی قرآن مجید میں مذکور تمام اوصاف و خصال آپ کی عادت اور طبیعت بن چکے تھے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اخلاق سیئہ کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان برے اخلاق والے لوگوں کی پیروی آپ ہر گز نہ کریں۔ فرمایا:
«وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ٭ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ٭ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ٭ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ٭ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ٭ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ» [68-القلم:10 ]
اور تو کسی ایسے شخص کا کہنا بھی نہ مانتا جو زیادہ قسمیں کھانے والا، بےوقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور، بھلائی سے روکنے والا، حد سے بڑھ جانے والا، گناہ گار، سرکش پھر ساتھ ہی مشہور و بدنام ہو اس کی سرکشی صرف اس لئے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں۔
حق یہ ہے کہ یہ اخلاق سیئہ کفار ہی کا حصہ ہیں ایمان مومن کو کبھی اتنی پستی میں نہیں گرنے دیتا۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 198   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 219  
´اہل علم کی فضیلت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: \" خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ: حُسْنُ سَمْتٍ وَلَا فِقْهٌ فِي الدّين \". رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نیک عادتیں منافق میں جمع نہیں ہو سکتی ہیں: حسن خلق، دینی سمجھ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 219]
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس روایت کے ایک راوی خلف بن ایوب العامری کے بارے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے لیکن جمہور کی توثیق کے بعد وہ صدوق اور حسن الحدیث کے درجے پر ہے۔
◄ حافظ ابن حبان نے اس کی توثیق کے باوجود اسے متعصب مرجی قرار دیا یعنی وہ اہل سنت میں سے نہیں بلکہ اہل بدعت میں سے تھا۔
◄ امام ترمذی نے حدیث مذکور کو «غريب» قرار دے کر فرمایا:
اور مجھے معلوم نہیں کہ یہ (خلف بن ایوب) کیسا ہے؟ [جامع ترمذي ص 605]
◄ امام ابوجعفر العقیلی نے فرمایا:
«ولكن حدث خلف هذا عن قيس وعوف بمناكير لم يتابع عليها وكان مرجئا»
لیکن اس خلف نے قیس اور عوف سے منکر روایتیں بیان کیں جن میں اس کی متابعت نہیں کی گئی اور وہ مرجی تھا۔ [كتاب الضعفاء الكبير 2؍24 ت443]
↰ اس جرح سے معلوم ہوا کہ قیس بن الربیع اور عوف الاعرابی سے خلف بن ایوب کی بیان کردہ روایات منکر یعنی ضعیف و مردود ہیں۔ ظاہر ہے کہ عام پر خاص اور غیر مفسر پر مفسر مقدم ہوتا ہے۔
◄ شیخ البانی رحمہ اللہ نے خلف بن ایوب کی جرح و تعدیل میں فلسفیانہ بحث کرنے کے بعد اس روایت کے دو شاہد ذکر کئے:
➊ محمد بن حمزہ بن یوسف بن عبداللہ بن سلام (تبع تابعی) کی مرسل (بلکہ معضل) روایت بحوالہ ابن المبارک، جس کا ضعیف ہونا اس کے انقطاع سے ظاہر ہے۔
➋ ابن المبارک کی سند کے ساتھ یہی روایت محمد بن حمزہ عن عبداللہ بن سلام کی سند کے ساتھ۔ [مسند الشهاب للقضاعي 210/1ح 318]
↰ یہ روایت بھی منقطع ہے اور عبداللہ بن سلام کے الفاظ میں بھی نظر ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں، لہٰذا خلف بن ایوب کی بیان کردہ روایت ضعیف ہی ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 219   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.