وعن علي رضي الله عنه:انهم تبارزوا يوم بدر. رواه البخاري واخرجه ابو داود مطولا.وعن علي رضي الله عنه:أنهم تبارزوا يوم بدر. رواه البخاري وأخرجه أبو داود مطولا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بدر کے روز ان (کافروں) کو دعوت مبارزت دی۔ (بخاری) اور ابوداؤد میں یہ حدیث طویل ہے۔
हज़रत अली रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि इन्हों ने बदर के दिन उन (काफ़िरों) को जंग के लिए बुलाया। (बुख़ारी) और अबू दाऊद में ये हदीस तवील है।
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التفسير، باب ﴿هذان خصمان اختصموا في ربهم﴾، حديث:4744، وأبوداود، الجهاد، حديث:2665.»
’Ali (RAA) narrated that They (the Muslims and the polytheists) engaged in duel combat on the Day of Badr. Related by Al-Bukhari and Abu Dawud reported it as part of a long hadith.
قم يا حمزة قم يا علي قم يا عبيدة بن الحارث فأقبل حمزة إلى عتبة وأقبلت إلى شيبة واختلف بين عبيدة و الوليد ضربتان فأثخن كل واحد منهما صاحبه ثم ملنا على الوليد فقتلناه واحتملنا عبيدة
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1096
تخریج: «أخرجه البخاري، التفسير، باب ﴿هذان خصمان اختصموا في ربهم﴾ ، حديث:4744، وأبوداود، الجهاد، حديث:2665.»
تشریح: 1. مذکورہ بالا حدیث میں جس مبارزت کا ذکر ہوا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ کو قتل کر دیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ بن ربیعہ کو قتل کر دیا لیکن حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور عتبہ بن ربیعہ کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوا اور اسی اثنا میں حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما عتبہ پر پل پڑے اور دونوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا لائے مگر ان کی ران کا زخم مسلسل بہتا رہا حتیٰ کہ وادی ٔصفراء میں مدینہ کی جانب واپسی کے موقع پر شہید ہوگئے۔ 2. روایات اس بات کی بابت تو مختلف ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل کون تھا‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل کون اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کے مقابل کون تھا؟ مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مبارزت میں جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جوہر شجاعت دکھائے وہ یہی تینوں تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1096
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2665
´مقابل یا حریف کو مقابلہ میں آنے کی دعوت دینے کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عتبہ بن ربیعہ آگے آیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا (ولید) اور اس کا بھائی اس کے پیچھے آئے، پھر عتبہ نے آواز دی: کون میرے مقابلے میں آئے گا؟ تو انصار کے کچھ جوانوں نے اس کا جواب دیا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے اسے بتایا (کہ ہم انصار کے لوگ ہیں) اس نے (سن کر) کہا: ہمیں تمہاری ضرورت نہیں، ہم اپنے چچا زادوں کو (مقابلہ کے لیے) چاہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ! تم کھڑے ہو، علی! تم کھڑے ہو، عبیدہ بن حارث! تم کھڑے ہو“، تو حمزہ رضی اللہ عنہ عتبہ کی طرف بڑھے، او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2665]
فوائد ومسائل: جنگ میں مقابلے کے لئے للکارنا جائز ہے۔ اس سے دشمن پر ہیبت چھا جاتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2665