ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابوتمیلہ یحییٰ بن واضح نے خبر دی، انہیں فلیح بن سلیمان نے، انہیں سعید بن حارث نے، انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: On the Day of `Id the Prophet used to return (after offering the `Id prayer) through a way different from that by which he went.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 102
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 986
حدیث حاشیہ: یعنی جو شخص سعید کا شیخ جابر ؓ کو قرار دیتا ہے اس کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے جو ابو ہریرہ ؓ کو سعید کا شیخ کہتا ہے۔ یونس کی اس روایت کو اسماعیل نے وصل کیا ہے۔ راستہ بدل کر آنا جانا بھی شرعی مصالح سے خالی نہیں ہے جس کا مقصد علماء نے یہ سمجھا کہ ہر دو راستوں پر عبادت الٰہی کے لیے نمازی کے قدم پڑیں گے اور دونوں راستوں کی زمینیں عند اللہ اس کے لیے گواہ ہوں گی (واللہ أعلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 986
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:986
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجر ؒ نے راستہ بدلنے کی بیس سے زیادہ مصلحتیں بیان کی ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ ہر طرف سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہو۔ ٭ جہاں جہاں قدم پڑیں قیامت کے دن وہ خطے گواہی دیں۔ ٭ دونوں طرف کے رہنے والے لوگوں سے ملاقات اور اظہار ہمدردی ہو۔ ٭ راستہ بدلنے میں نیک فال مقصود ہے کیونکہ اسی راستے سے واپس جانا ایسا ہے۔ جیسا کہ پہلے کام کو ادھیڑ رہا ہے۔ ٭ راستہ تبدیل کیا تاکہ یہود ومنافقین کی نظر بد سے محفوظ رہیں۔ (فتح الباري: 609/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 986