فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے:
”جب کوئی آدمی عید کی نماز امام کے ساتھ نہ پائے تو وہ دو رکعتیں پڑھ لے۔
“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس باب کے متعلق دو مسئلوں کا ذکر فرماتے ہیں:
«في هذه الترجمة حكمان: مشروعيه استدراك صلاة العيد إذا فاتت مع الجماعة سواء كانت بالاضطرار أو بالاختيار وكونها تقضي ركعتين كأصلها، وخالف فى الأوّل جماعة منهم المزني فقال: لا تفضي، . . .» [فتح الباري ج2 ص603] ”اس باب میں دو حکموں کا بیان ہے ایک یہ کہ عید کی نماز کو قضا کر کے پڑھنی درست ہے خواہ اختیار سے قضا ہو یا اضطرار سے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عید کی قضا بھی اصل کی طرح دو ہی رکعتیں ہیں اور اس کی مخالفت پہلی جماعت نے کی ہے، ان میں مزنی وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ عید کی قضا نہیں اور دوسری جماعت امام ثوری اور امام أحمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دو ہی رکعتیں پڑھے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عید کی قضا نہیں اس لیے کہ جمعہ کی طرح بغیر وجود شرائط کے عید بھی درست نہیں ہے پس جیسے کہ تنہا جمعہ جائز نہیں ہے ویسے ہی تنہا عید بھی درست نہیں
دوسری عبارت جو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی کہ
”اور اسی طرح عورتیں بھی عید کی نماز پڑھیں اور جو گھروں میں رہتا ہے وہ بھی عید کی نماز پڑھے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہماری عید ہے، اے مسلمانو!
“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کو تمام مسلمانوں کے لیے عید ٹھہرایا ہے کسی کو خاص نہیں کیا پس اس حدیث کا کل افراد مسلمانوں کو شامل ہو گا خواہ مرد ہو یا عورت، خواہ شہر میں رہتا ہو یا دیہات میں بستا ہو یا گھروں میں رہتا ہو اور خواہ کوئی امام کے ساتھ نماز پائے یا نہ پائے۔ پس وجہ مطابقت اس حدیث کی باب سے ظاہر ہوئی۔
دوسرا اثر جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ زاویہ ایک جگہ ہے جس میں انس رضی اللہ عنہ کا گھر تھا وہ اکثر اوقات جمعہ اور عید کی نماز اسی جگہ پڑھا کرتے تھے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«كان انس إذا فاته صلاة العيد مع الامام جمع أهله فصلي بهم مثل صلاة الامام فى العيد .» [سنن الكبريٰ البيهقي ج3 ص428] ”انس رضی اللہ عنہ کی جب عید کی نماز امام کے ساتھ فوت ہو جاتی تو اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور عید کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے۔
“ اس اثر سے معلوم ہوا کہ دیہات اور گھروں میں عید پڑھنی جائز ہے اور اسی طرح عورتوں کو بھی پڑھنی جائز ہے۔
عکرمہ رضی اللہ عنہ کا جو اثر پیش کیا گیا اس اثر سے بھی یہی معلوم ہوا کہ دیہات میں رہنے والے عید کی نماز پڑھیں پس یہیں سے باب اور اثر میں مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔
عطاء رحمہ اللہ سے جس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر عید کی نماز قضا ہو جائے تو اس کے بدلے میں دو ہی رکعت پڑھے، ان آثار سے باب کے تمام مسائل ظاہر ہو گئے
«الحمدلله» اور جو حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ
«هذا عيدنا أهل الاسلام» یہ ہماری عید ہے اے اہلِ اسلام اور اہلِ اسلام کا لفظ تمام مسلمانوں کو شامل کرتا ہے خواہ وہ اکیلے ہوں یا جماعت کی صورت میں جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی ہے اور دوسرا اہم مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منٰی کے دنوں کو عید کا دن فرمایا اور عید کے دن کے لیے اس نماز کو مشروع قرار دیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ عید کی نماز ان سب دنوں میں ادا ہو جایا کرتی ہے پس اگر پہلے دن قضا ہو جائے تو دوسرے یا تیسرے دن بھی پڑھ لینی چاہئے، اس کو قضا کہنا بہ نسبت پہلے دن کے ہے ورنہ دراصل قضا نہیں بلکہ ادا ہے، یہ ادا اپنے وقت میں واقع ہوتی ہے یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت ہے۔
[فتح الباري ج2 ص602] فائدہ: مذکورہ بالا حدیث جو امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث کو آٹھ مقامات پر ذکر فرمایا۔ کہیں مختصر تو کہیں مفصل۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کتاب العدیدین، باب الحراب والدرق یوم العید میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
اس حدیث میں «جاريتان تغنيان» کے الفاظ موجود ہیں جس کو بعض گمراہ کن صوفیاء اور موجودہ دور کے نام نہاد میڈیا اسکالر موسیقی کے جواز پر پیش کرتے ہیں جو اس کا معنی پیشہ ور گانے والیاں لیتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”اس حدیث سے صوفیاء کے ایک گروہ نے گانا گانے اور گانا سننے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اس استدلال کے بطلان کے لیے اگلے باب کی وہی حدیث کافی تھی جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لڑکیوں کے بارے میں تصریح کی ہے کہ
«وليسا بمغنيتين» ”وہ دونوں کوئی پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں۔
“ مزید حافظ صاحب رقمطراز ہیں:
”شادی بیاہ جیسے خوشی کے مواقع پر دف بجانے کی اباحت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر آلات موسیقی وغیرہ بھی بجانا مباح ہوں۔ جیسا کہ ہم ان شاء اللہ ولیمہ کی بحث میں ذکر کریں گے۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا اوڑھ لینا تو دراصل یہ اس طریقے سے گانا سننے سے اعتراض مقصود تھا اس لیے کہ نہ سننا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تقاضا تھا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکیر نہ کرنا صرف اس نوعیت کے غنا کے جواز پر دلالت کرتا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی برائی کو باقی نہ رہنے دیتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«غناء» کا اطلاق عربی زبان میں ترنم اور بلند آواز سے پڑھنے پر ہوتا ہے۔ جسے اہل عرب نصب کہتے ہیں۔ اسی طرح حدی خوانی پر بھی
«غناء» کا لفظ بولا جاتا ہے، لیکن نصب اور حدی خواں کو
«مغنّي» نہیں کہا جاتا۔
«مغنّي» صرف اس شخص کو کہتے ہیں جو آواز کے زیر وبم کے ساتھ لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر ایسے اشعار گائے جن میں گندی باتوں کی صراحت یا اشارہ ہو۔
[فتح الباري، ج2، ص354] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں
«وهو كلام حسن .» [روح المعاني، ج21، ص75] مذکورہ بالا حدیث کسی بھی طریقے سے گانے بجانے اور سننے کے جواز پر نہیں ہے۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند باتیں قابل غور ہیں۔
➊ امی عائشہ رضی اللہ عنہا بنفس نفیس غنا کو حرام سمجھتی تھیں، اسی وجہ سے انہوں نے وضاحت فرما دی کہ یہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہیں ہیں۔
➋ لڑکیاں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو جنگ بعاث کے موقع پر کہے گئے تھے اور جنگ بعاث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے تین سال قبل اوس اور خزرج میں واقع ہوئی تھی۔
➌ گانے والی لڑکیاں کمسن اور غیر مکلف تھیں ان دونوں کے لئے امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے
«جاريتان» کے لفظ کہے جو نابالغ لڑکی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«جاريتان الجارية فى النساء كالغلام فى الرجال يقعان على من دون البلوغ فيهما» [زهر الربي، ج1، ص236] «جاريه» کا لفظ عورتوں میں بالکل ایسے ہے جیسے غلام کا لفظ مردوں میں، دونوں کا اطلاق بلوغیت سے پہلے کی عمر میں ہے۔
➍ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بخوبی معلوم تھا کہ گانا بجانا حرام ہے یہی وجہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب تشریف لائے تو آپ نے یہ ماجرا دیکھتے ہی ان بچیوں کو ڈانٹا۔
➎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرہ مبارک پر چادر اوڑھ رکھی اور آپ اس فعل سے علیحدہ رہے جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ کام آپ کا پسندیدہ نہ تھا۔
امام بغوی رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت بات کہی، آپ فرماتے ہیں:
«وكان الشعر الذى تغنيان فى وصف الحرب والشجاعة وفي ذكره معونة فى أمر الدين فأما الغناء بذكر الفواحش والابتغاء بالحرم والمجاهرة بالمنكر من القول فهو المحظور من الغناء وحاشاه أن يجري شيئ من ذالك ب سيدنا ه عليه السلام فيغفل النكير له» [شرح السنة للبغوي، ج4، ص322] ”وہ شعر جو دونوں لڑکیاں گا رہی تھیں حرب و شجاعت کے بارے میں تھے اور ان کے پڑھنے سے ایک طرح دینی معاملے
(جہاد) میں مدد ملتی تھی اور جن اشعار میں فواہش کا ذکر ہو حرام اور ناجائز باتوں کا اظہار ہو ان کا گانا جائز نہیں حاشا وکلا اگر ایسی چیزیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گائی جائیں تو آپ اس پر نکیر کرنے سے نہ چوکتے۔
“ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ان دونوں لڑکیوں کے گیت جنگ بہادری پر فخر، فتح اور غلبہ جیسے مضامین پر مشتمل تھے۔
“ [شرح صحيح مسلم از امام نووي، ج1، ص291] ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ گانا بجانا اور سننا شریعت میں حرام ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث سے غلط نتائج کا حاصل کرنا علوم دین سے غفلت یا پھر خیانت کی واضح دلیل ہوگی جو کہ شریعی احکامات میں تبدیلی کے مترادف ہے۔