ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ بن قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے (امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ) عبداللہ نے اپنے باپ ابوقتادہ سے روایت کی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے دیکھ نہ لو صف بندی کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور آہستگی سے چلنا لازم کر لو۔
Narrated `Abdullah bin Abi Qatada on the authority of his father: The Prophet (p.b.u.h) said, "Do not stand up (for prayer) unless you see me, and observe calmness and solemnity".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 32
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 909
حدیث حاشیہ: تشریح: حضرت امام بخاری ؒ نے احتیاط کی راہ سے اس میں شک کیا کہ یہ حدیث ابو قتادہ کے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ سے موصولًا روایت کی یا عبد اللہ نے اس کو مرسلاً روایت کیا، شاید یہ حدیث انہوں نے اس کتاب میں اپنی یاد سے لکھی، اس وجہ سے ان کو شک رہا لیکن اسماعیلی نے اسی سند سے اس کو نکالا اس میں شک نہیں ہے عبداللہ سے انہوں نے ابو قتادہ سے روایت کی موصولاً ایسے بہت سے بیانات سے واضح ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ روایت حدیث میں انتہا ئی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے پھر تف ہے ان لوگوں پر جو صحیح مرفوع احادیث کا انکار کر تے ہیں۔ ھداھم اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 909
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:909
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب الأذان میں (رقم: 638 کے تحت) بیان کیا تھا اور اس پر بایں الفاظ عنوان بندی کی تھی: (باب: لا يقوم إلي الصلاة مستعجلاً وليقم إليها بالسكينة والوقار) ”نماز کے لیے جلد بازی سے کھڑا نہیں ہونا چاہیے بلکہ آرام و سکون سے کھڑا ہونا چاہیے“ وہاں مذکورہ روایت کو بطور متابعت بیان کیا تھا۔ اس مقام پر محل استشہاد وعليكم السكينة کے الفاظ ہیں۔ علامہ ابن رشید ؒ فرماتے ہیں: ”اس حکم امتناعی میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مقتدی حضرات جلد بازی میں نماز کے لیے کھڑے ہوں گے تو اسی حالت میں وہ نماز شروع کریں گے، ایسا کرنے سے نماز کے لیے ہئیت وقار و سکون مجروح ہو گی جو مقاصد نماز کے منافی ہے۔ “(2) حدیث مذکور کی عنوان سے مطابقت بھی واضح ہو گئی کہ جمعہ کے لیے دوڑ کر آنے کی ممانعت ہے کیونکہ ایسا کرنا وقار اور سکون کے منافی ہے۔ (فتح الباري: 504/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 909
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 539
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے (آتا) نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہوا کرو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ایوب اور حجاج الصواف نے یحییٰ سے روایت کیا ہے۔ اور ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ مجھے یحییٰ نے یہ حدیث لکھ کر بھیجی، نیز اسے معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے بھی یحییٰ سے روایت کیا ہے، ان دونوں کی روایت میں ہے: ”یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو، اور سکون اور وقار کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 539]
539۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بھی اقامت کہہ دی جاتی تھی، جب کہ آپ کو پہلے جماعت کا وقت ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 539
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 688
´امام کے نکلنے کے وقت مؤذن کے اقامت کہنے کا بیان۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو جب تک تم مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو۔“[سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 688]
688 ۔ اردو حاشیہ: کبھی ایسا ہوتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے کہتے تم اقامت کہو، میں آتا ہوں۔ مؤذن کا اندازہ ہوتاکہ اب آپ آ رہے ہیں، مؤذن اقامت کہہ دیتا مگر آپ کو کچھ دیر ہو جاتی۔ آپ نے محسوس فرمایا کہ اس سے لوگوں کو ناحق تکلیف ہو گی، اس لیے آپ نے انہیں کھڑا ہونے سے روک دیا، جب تک کہ آپ تشریف لے نہ آئیں۔ اسی سے مؤلف رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ جب اٹھنا امام کو دیکھ کر ہے تو پہلے اقامت کہنے سے کیا فائدہ؟ لہٰذا امام کو آتا دیکھ کر اقامت کہی جائے اور یہ صحیح بات ہے۔ پہلے ہی اقامت کہہ دینا مشکلات کا سبب ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کچھ اور تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 688
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 791
´(نماز کے لیے) لوگوں کے کھڑے ہونے کا بیان۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جائے، تو جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہوا کرو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 791]
791 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بسا اوقات ایسے ہوتاکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے وقت کی اطلاع دیتے تو آپ فرماتے: تم اقامت کہو میں آ رہا ہوں۔ وہ آکر اقامت کہہ دیتے۔ کبھی آپ کو گھر میں کچھ دیر ہو جاتی اس لیے لوگوں کو بے فائدہ کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے یہ ارشاد فرمایا۔ بالتبع معلوم ہوا کہ اقامت امام کی اجازت سے اس کے آنے سے قبل بھی کہی جا سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 791
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:431
431- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے، تو لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہو، جب تک مجھے دیکھ نہیں لیتے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:431]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نمازیوں کو امام کا انتظار کرنا چاہیے، جب وہ مسجد میں آجائے اور نظر آ جائے تب اقامت کہنی شروع کرنی چاہیے۔ اگر امام مسجد میں ہی بیٹھا ہوا ہے تو جب جماعت کا وقت ہو جائے، تو اس وقت امامت کہہ دینی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 431
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 637
637. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا؛ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے آتا نہ دیکھ لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:637]
حدیث حاشیہ: اس مسئلے میں کئی قول ہیں۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک تکبیر ختم ہونے کے بعد مقتدیوں کو اٹھنا چاہئیے، امام مالک ؒ کہتے ہیں تکبیر شروع ہوتے ہی۔ امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ جب مؤذن حي علی الصلوٰة کہے اور جب مؤذن قدقامت الصلوٰة کہے توامام نماز شروع کردے۔ امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ حي علی الصلوٰة پر اٹھے۔ امام بخاری ؒ نے باب کی حدیث لا کر یہ اشارہ کیا جب امام مسجد میں نہ ہو تو مقتدیوں کو چاہئیے کہ بیٹھے رہیں اور جب امام کو دیکھ لیں تب نماز کے لیے کھڑے ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 637
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:637
637. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا؛ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے آتا نہ دیکھ لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:637]
حدیث حاشیہ: لوگوں کو جماعت کےلیے کب کھڑا ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے کوئی فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اقامت ختم ہونے کے بعد مقتدیوں کو اٹھنا چاہیے جبکہ کچھ فقہاء کہتے ہیں کہ اقامت کے آغاز ہی میں مقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ اسی طرح بعض حي على الصلاة اور بعض قد قامت الصلاة کہنے کے وقت اٹھنے کے قائل ہیں۔ تنقیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر امام مسجد سے باہر ہو تو مقتدیوں کو چاہیے کہ جب وہ مسجد میں آجائے تو صف بندی کے لیے کھڑے ہوں۔ اگر وہ مسجد کے اندرہو تو جب وہ اپنی جگہ سے جماعت کےلیے اٹھے تو مقتدی بھی اس وقت کھڑے ہوں۔ مذکورہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابھی گھر میں ہوتے تھے کہ نماز کے لیے اقامت کہہ دی جاتی تھی، لیکن ایک دوسری حدیث میں ہےکہ حضرت بلال ؓ اس وقت تک تکبیر نہ کہتے تھے جب تک رسول اللہ ﷺ گھر سے برآمد نہ ہوجاتے۔ ان کے درمیان بایں طور تطبیق دی گئی ہے کہ حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے گھر سے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے۔ جب رسول اللہ ﷺ پر حضرت بلال ؓ کی نظر پڑتی تو اقامت کہنا شروع کردیتے جبکہ رسول اللہ ﷺ اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے تھے۔ جب لوگ آپ کو دیکھتے تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے، پھر رسول اللہ ﷺ اس وقت تک جماعت کے لیے مصلے پر نہ آتے جب تک کہ لوگ اپنی صفیں درست نہ کرلیتے۔ (فتح الباري: 185/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 637
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 637
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو۔ [صحيح بخاري ح: 637]
فوائد:
➊ اس حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اقامت کہہ دیتے تھے جب ابھی تک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف نہیں لائے ہوتے تھے، اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بلال رضی اللہ عنہ پہلے اقامت کس طرح کہہ دیتے تھے؟ اس
کا جواب یہ ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا خاص خیال رکھتے تھے، اس لیے انھیں دروازے یا پردے کی حرکت سے یا آپ کے کھانسنے سے یا آپ کے معمول کے وقت سے آپ کی تشریف آوری کا اندازہ ہو جاتا تھا، اس لیے وہ اقامت کہہ دیتے تھے، مگر آپ نے مقتدیوں کو اس وقت تک کھڑے ہونے سے منع کر دیا کہ وہ آپ کو دیکھ لیں، کیونکہ بعض اوقات اقامت کہنے والا اقامت کہہ دیتا ہے، مگر اس کے دوران امام کو کوئی عذر پیش آ جاتا ہے تو وہ آنے سے رک جاتا ہے، اس لیے فرمایا: ”تم مجھے دیکھ لینے تک کھڑے نہ ہو۔“ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب امام مسجد میں موجود نہ ہو تو اس کی آمد اور اسے دیکھ لینے تک مقتدیوں کو کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔
➋ رہی یہ بات کہ اگر امام مسجد میں موجود ہو تو اقامت کہے جانے پر لوگ کس وقت کھڑے ہوں تو اس کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ اس وقت کھڑے ہوں جب اقامت پوری ہو جائے۔ بعض نے کہا کہ اقامت کہنے والے کے «اللهُ أَكْبَرُ» کہنے پر کھڑے ہو جائیں۔ بعض نے کہا «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» پر کھڑے ہو جائیں اور جب موزن «قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ» کہے تو امام «الله أكبر» کہہ کر نماز شروع کر دے مگر اس صورت میں امام کے لیے صفیں درست کروانے کا موقع ہی نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، اس لیے اس میں وسعت ہے۔ اقامت کے شروع میں کھڑے ہو جائیں یا اس کے درمیان میں یا آخر میں یہ طرح درست ہے، کیونکہ شریعت نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔
➌ صحیح بخاری ہی میں اس کے قریب باب (24) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث آ رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے جب کہ اقامت ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو گئی تھیں، پھر آپ تشریف لا کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ [ابو داؤد 541] میں انھی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کی اقامت ہو جاتی تھی، لوگ آپ کے آنے سے پہلے اپنی اپنی جگہ پکڑ لیتے تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ان احادیث اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ کی آمد سے پہلے کھڑے ہونے سے منع ہی اس لیے کیا گیا کہ لوگ پہلے کھڑے ہو جاتے تھے، جب آپ نے منع کر دیا تو ظاہر ہے کہ صحابہ سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ منع کرنے کے باوجود آپ کو دیکھنے سے پہلے صفیں مکمل کر لیتے ہوں گے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 637