ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ جن کا نام خالد بن دینار ہے، نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے پڑھ لیتے۔ لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت نماز پڑھتے۔ آپ کی مراد جمعہ کی نماز سے تھی۔ یونس بن بکیر نے کہا کہ ہمیں ابوخلدہ نے خبر دی۔ انہوں نے صرف نماز کہا۔ جمعہ کا ذکر نہیں کیا اور بشر بن ثابت نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ نے بیان کیا کہ امیر نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی۔ پھر انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے؟
Narrated Anas bin Malik: The Prophet used to offer the prayer earlier if it was very cold; and if it was very hot he used to delay the prayer, i.e. the Jumua prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 29
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 906
حدیث حاشیہ: امیر سے حکم بن ابو عقیل ثقفی مراد ہیں جو حجاج بن یوسف کی طرف سے نائب تھے۔ استدل به ابن بطال علی أن وقت الجمعة وقت الظھر لأن أنسا سوی بینھما في جوابه للحکم المذکور حین قیل کیف کان النبي صلی اللہ علیه وسلم یصلي الظھر۔ (یعنی) اس سے ابن بطال نے استدلال کیا کہ جمعہ اور ظہر کا وقت ایک ہی ہے۔ کیونکہ حضرت انس نے جواب میں جمعہ اور ظہر کو برابر کیا جبکہ ان سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ ظہر کی نماز کس وقت ادا فرمایا کرتے تھے؟
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 906
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:906
حدیث حاشیہ: (1) قبل ازیں روایت انس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ اول وقت میں پڑھتے تھے۔ اس میں مطلقاً تعجیل کا ذکر ہے۔ موسم کے گرم یا سرد ہونے کی تفصیل نہیں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 905) جبکہ مذکورہ روایت میں یہ تفصیل موجود ہے، نیز بشر بن ثابت کی معلق روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کے نزدیک نماز ظہر اور نماز جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سوال تو نماز جمعہ کے متعلق تھا لیکن جواب میں نماز ظہر کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ اس سے بھی واضح وہ ہدایت ہے جس میں سیدنا انس ؓ نے یزید ضبی کے سوال کا جواب دیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف کی طرح اس کا نائب حکم بن ابی عقیل ثقفی بھی طویل خطبہ دیتا اور نماز میں تاخیر کرتا تھا۔ یزید ضبی نے سیدنا انس ؓ سے بآواز بلند سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نمازیں پڑھی ہیں، آپ نماز جمعہ کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا ہم موسم سرما میں نماز جلدی اور گرما میں دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا آپ نے جمعہ کو ظہر پر قیاس کر کے یہ جواب دیا اور نماز جمعہ کے لیے تاخیر کی وجہ بیان کر دی جس پر حاکم وقت سے اعتراض اٹھ گیا۔ لیکن اس کی بنیاد الفاظ حدیث پر نہیں بلکہ قیاس پر ہے، پھر اکثر احادیث نماز جمعہ اور نماز ظہر کے مابین فرق پر دلالت کرتی ہیں۔ (2) علامہ زین بن منیر ؒ نے کہا ہے کہ اس عنوان اور حدیث سے امام بخارى ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس کر کے اسے تاخیر سے پڑھا جا سکتا ہے۔ جب نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا جمعہ کے لیے بھی مشروع ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جمعہ زوال سے پہلے پڑھنا مشروع نہیں، اس لیے کہ اگر وہ زوال سے پہلے مشروع ہوتا تو زیادہ گرمی کی وجہ سے تاخیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ زوال سے پہلے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ہر طرح سے نماز کو تشویش و پریشانی سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ وہ پورے اطمینان اور خشوع خضوع سے نماز ادا کرے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی رعایت کا یہی منشا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ رعایت کسی صورت میں نہیں ہے۔ (فتح الباري: 501/2) (3) یونس بن بکیر کی معلق روایت کو مصنف نے الادب المفرد میں متصل سند سے بیان کیا ہے اور بشر بن ثابت کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 500/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 906