(قدسي) حدثنا احمد بن إسحاق، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، حدثنا إسحاق بن عبد الله، سمعت عبد الرحمن بن ابي عمرة، قال: سمعت ابا هريرة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن عبدا اصاب ذنبا، وربما قال: اذنب ذنبا، فقال: رب اذنبت، وربما قال: اصبت، فاغفر لي، فقال ربه: اعلم عبدي ان له ربا يغفر الذنب وياخذ به، غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله، ثم اصاب ذنبا او اذنب ذنبا، فقال: رب، اذنبت او اصبت آخر، فاغفره، فقال: اعلم عبدي ان له ربا يغفر الذنب وياخذ به، غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله، ثم اذنب ذنبا، وربما قال: اصاب ذنبا، قال: قال رب، اصبت او قال اذنبت آخر: فاغفره لي، فقال: اعلم عبدي ان له ربا يغفر الذنب وياخذ به، غفرت لعبدي ثلاثا، فليعمل ما شاء".(قدسي) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا، وَرُبَّمَا قَالَ: أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ، وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَبْتُ، فَاغْفِرْ لِي، فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ، غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَقَالَ: رَبِّ، أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ، فَاغْفِرْهُ، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ، غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَابَ ذَنْبًا، قَالَ: قَالَ رَبِّ، أَصَبْتُ أَوْ قَالَ أَذْنَبْتُ آخَرَ: فَاغْفِرْهُ لِي، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ، غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلَاثًا، فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ".
ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے ہم سے اسحاق بن عبداللہ نے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ سے سنا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بھی بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور میں عرض کیا: اے میرے رب! میں نے گناہ پھر کر لیا ہے تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ورنہ اس کی وجہ سی سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔
Narrated Abu Huraira: I heard the Prophet saying, "If somebody commits a sin and then says, 'O my Lord! I have sinned, please forgive me!' and his Lord says, 'My slave has known that he has a Lord who forgives sins and punishes for it, I therefore have forgiven my slave (his sins).' Then he remains without committing any sin for a while and then again commits another sin and says, 'O my Lord, I have committed another sin, please forgive me,' and Allah says, 'My slave has known that he has a Lord who forgives sins and punishes for it, I therefore have forgiven my slave (his sin). Then he remains without Committing any another sin for a while and then commits another sin (for the third time) and says, 'O my Lord, I have committed another sin, please forgive me,' and Allah says, 'My slave has known that he has a Lord Who forgives sins and punishes for it I therefore have forgiven My slave (his sin), he can do whatever he likes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 598
عبدا أصاب ذنبا وربما قال أذنب ذنبا فقال رب أذنبت وربما قال أصبت فاغفر لي فقال ربه أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به غفرت لعبدي ثم مكث ما شاء الله ثم أصاب ذنبا أو أذنب ذنبا فقال رب أذنبت أو أصبت آخر فاغفره فقال أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به
أذنب عبد ذنبا فقال اللهم اغفر لي ذنبي فقال تبارك و أذنب عبدي ذنبا فعلم أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب ثم عاد فأذنب فقال أي رب اغفر لي ذنبي فقال تبارك و عبدي أذنب ذنبا فعلم أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب ثم عاد فأذنب فقال أي رب اغفر لي ذنبي
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7507
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری کامقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا حق ہے۔ اس حدیث میں بھی اللہ کا کلام ایک گہنگار کے متعلق مذکور ہے اور یہ بتلانا بھی مقصد ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے مگر قرآن مجید کےعلاوہ بھی اللہ کلام کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺصادق المصدوق ہیں۔ آپ نے یہ کلام نقل فرمایا ہے جو لوگ اللہ کے کلام کا انکار کرتےہیں، ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ صادق المصدوق نہیں ہیں۔ اس حدیث سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی بشرطیکہ گناہوں سے تائب ہوتا جائے اور استغفار کرتا رہے تو اس کو ضررنہ ہوگا۔ استغفار کی تین شرطیں ہیں۔ گناہ سے الگ ہو جانا، نادم ہونا، آگے کے لیے یہ نیت کرنا کہ اب نہ کروں گا۔ اس نیت کے ساتھ اگر پھر گناہ ہو جائے تو پھر استغفار کرے۔ دوسری حدیث میں ہے اگر ایک دن میں ستر وہی گناہ کرے لیکن استغفار کرتا رہے تو اس نے اصرار نہیں کیا۔ اصرار کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر نادم نہ ہو اس کے پھر کرنے کی نیت رکھے۔ صرف زبان سےاستغفار کرتا رہے کہ ایسا استغفار خود استغفار کے قابل ہے۔ اللهم إنانستغفرك ونتوب إليك فاغفرلنا ياخيرالغافرين آمين-
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7507
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7507
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ حدیث پیش کرنے سےامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مبنی برحقیقت ہے، چنانچہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ایک گناہ گار کے متعلق گفتگو کرنا مذکور ہے، نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلام الٰہی کو ذکرکیا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں وہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے منکر ہیں۔ 2۔ اس حدیث سے استغفار کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے اور استغفار کی تین شرطیں ہیں: گناہ چھوڑنا، اس پر شرمسار ہونا، پھر اس کے نہ کرنے کا عزم بالجزم (پختہ ارادہ) کرنا، اگر اس نیت کے ساتھ، پھر گناہ ہو جائے تو استغفار کرنے سے وہ گناہ ختم ہو جائے گا بشرط یہ کہ گناہ پر اصرار نہ کرے۔ اصرار کے معنی ہیں: گناہ پر نادم ہونے کی بجائے اس کے ارتکاب کی نیت رکھے۔ صرف زبانی استغفار پر اکتفا نہ کرے۔ ایسا زبانی استغفار جو دل کی گہرائی سے نہ ہو بجائے خود استغفار کے قابل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7507