(قدسي) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يقول الله: إذا اراد عبدي ان يعمل سيئة فلا تكتبوها عليه حتى يعملها، فإن عملها فاكتبوها بمثلها، وإن تركها من اجلي، فاكتبوها له حسنة، وإذا اراد ان يعمل حسنة فلم يعملها، فاكتبوها له حسنة، فإن عملها فاكتبوها له بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف".(قدسي) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَقُولُ اللَّهُ: إِذَا أَرَادَ عَبْدِي أَنْ يَعْمَلَ سَيِّئَةً فَلَا تَكْتُبُوهَا عَلَيْهِ حَتَّى يَعْمَلَهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا بِمِثْلِهَا، وَإِنْ تَرَكَهَا مِنْ أَجْلِي، فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً فَلَمْ يَعْمَلْهَا، فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو یہاں تک کہ اسے کر نہ لے۔ جب اس کو کر لے پھر اسے اس کے برابر لکھو اور اگر اس برائی کو میرے خوف سے چھوڑ دے تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھو اور اگر بندہ کوئی نیکی کرنی چاہے تو اس کے لیے ارادہ ہی پر ایک نیکی اس کے لیے لکھو۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Allah says, "If My slave intends to do a bad deed then (O Angels) do not write it unless he does it; if he does it, then write it as it is, but if he refrains from doing it for My Sake, then write it as a good deed (in his account). (On the other hand) if he intends to go a good deed, but does not do it, then write a good deed (in his account), and if he does it, then write it for him (in his account) as ten good deeds up to seven-hundred times.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 592
إذا أراد عبدي أن يعمل سيئة فلا تكتبوها عليه حتى يعملها فإن عملها فاكتبوها بمثلها وإن تركها من أجلي فاكتبوها له حسنة وإذا أراد أن يعمل حسنة فلم يعملها فاكتبوها له حسنة فإن عملها فاكتبوها له بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف
إذا هم عبدي بحسنة ولم يعملها كتبتها له حسنة فإن عملها كتبتها عشر حسنات إلى سبعمائة ضعف وإذا هم بسيئة ولم يعملها لم أكتبها عليه فإن عملها كتبتها سيئة واحدة
إذا هم عبدي بحسنة فاكتبوها له حسنة فإن عملها فاكتبوها له بعشر أمثالها وإذا هم بسيئة فلا تكتبوها فإن عملها فاكتبوها بمثلها فإن تركها وربما قال لم يعمل بها فاكتبوها له حسنة ثم قرأ من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها
إذا تحدث عبدي بأن يعمل حسنة فأنا أكتبها له حسنة ما لم يعملها فإذا عملها فأنا أكتبها له بعشر أمثالها وإذا تحدث بأن يعمل سيئة فأنا أغفرها ما لم يعملها فإذا عملها فأنا أكتبها له بمثلها
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7501
حدیث حاشیہ: اس سے بھی اللہ کا کلا م کرنا ثابت ہوا کہ وہ قرآن کےعلاوہ بھی کلام نازل کرتا ہے۔ جیسا کہ ان جملہ احادیث میں موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7501
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7501
حدیث حاشیہ: اس قدسی حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے علاوہ بھی کلام کرتا ہے اور بندوں کی رہنمائی کے لیے ایسے احکام دیتا ہے جس سے اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ وہ احکام قرآن کریم کے علاوہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کلام میں الفاظ اورآواز ہوتی ہے، چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان بالا کو ثابت کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7501
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3073
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمان برحق (و درست) ہے: جب میرا بندہ کسی نیکی کا قصد و ارادہ کرے، تو (میرے فرشتو!) اس کے لیے نیکی لکھ لو، اور اگر وہ اس بھلے کام کو کر گزرے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ لو، اور جب وہ کسی برے کام کا ارادہ کرے تو کچھ نہ لکھو، اور اگر وہ برے کام کو کر ڈالے تو صرف ایک گناہ لکھو، پھر اگر وہ اسے چھوڑ دے (کبھی راوی نے یہ کہا) اور کبھی یہ کہا (دوبارہ) اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے) تو اس کے لیے اس پر بھی ایک نیکی لکھ لو، پھر آپ نے آیت «من ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3073]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جس نے نیک کام کیا ہوگا اس کو دس گنا ثواب ملے گا، اور جس نے برائی کی ہوگی اس کو اسی قدر سزا ملے گی۔ اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا (الأنعام: 160)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3073
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 334
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جب میرا بندہ کسی گناہ کا قصد و عزم کرے تو اس کو اس کے نامۂ اعمال میں نہ لکھو۔ اگر وہ اس کو عمل میں لائے تو اسے ایک بدی لکھو۔ اور جب نیکی کا قصد و عزم کرے تو اس کو ایک نیکی لکھ لو، پس اگراس پر عمل کرے تو دس نیکیاں لکھ لو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:334]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : هَمَّ: قَصَدَ وَأَرَادَ: بعض حضرات نے ہم (قصد و ارادہ) اور عزم (پختہ و مضبوط ارادہ) میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک قصد اور ارادہ پر مواخذہ نہیں ہے، لیکن عزم پر مواخذہ ہے، وہ دین میں آنے والے خیالات کو پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: (1) هَاجِسٌ: کسی چیز کا اچانک خیال آ جائے اور گزر جائے۔ (2) خَاطِرٌ: کسی چیز کا بار بار خیال آئے لیکن اس کے کرنے یا بولنے کا قصد نہ کرے۔ (3) حَدِیْثُ النَّفْسِ: جس چیز کا خیال آئے، ذہن اس کی طرف راغب ہو اور اس کے حصول کا منصوبہ سوچے۔ (4) هَمٌّ: کسی چیز کا دل میں خیال آئے، اور اس کے حصول کا ارادہ غالب ہو، اگرچہ کسی مختص نقصان کی بنا پر خفیف سا خیال ہو اس کو حاصل نہ کیا جائے۔ (5) عَزْمٌ: کسی چیز کا خیال دل میں جم جائے اور اس کے حصول کا پختہ عزم و ارادہ ہو۔ فوائد ومسائل: مسلمان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل وکرم ہے، نیکی کرنے کا محض ارادہ ہی ایک نیکی کے اجر وثواب کا باعث بنتا ہے اور اگر وہ اپنے قصد وارادے کو عملی جامہ پہنا لیتا ہے تو اس کے اجر وثواب میں کم از کم دس گنا اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک وہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کرتا اس کے نامہ اعمال میں برائی نہیں لکھی جاتی اور وہ اللہ کے خوف اور ڈر سے اس سے باز آجائے تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے۔