حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث کے آغاز ہی سے قیامت کے دن دیدار الٰہی کا ثبوت ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے سوال کیا کہ قیامت کے دن ہم اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے مثال دے کر فرمایا کہ کسی قسم کی دکت یا رکاوٹ کے بغیر تم اپنے رب کو دیکھو گے جبکہ معتزلہ نے اس دیدار کا انکار کیا ہے اورقرآن وحدیث کی ظاہر نصوص کے متعلق تاویل کا سہارا لیا ہے۔
2۔
ہمارے نزدیک قیامت کے دن اہل ایمان اپنی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کریں گے اور اہل جنت کے لیے دیدار الٰہی سے بڑی نعمت ہوگی جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب اہل جنت،جنت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے تو اچانک ان کے سامنے ایک عظیم روشنی ظاہر ہوگی۔
وہ اپنے سر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کے اوپر اللہ رب العزت جلوہ افروز ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا:
اے جنت میں رہنے والو! السلام علیکم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ثابت ہے:
(سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ) ”مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائےگا۔
“ (یٰس 58/36) پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کی طرف دیکھے گا اور اہل جنت اپنے رب سے محودیدار ہوں گے۔
اہل جنت اللہ تعالیٰ کے دیدارمیں اس قدر ڈوب چکے ہوں گے کہ وہ کسی اور نعمت کی طرف توجہ ہی نہیں کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ہٹ جائے گا، البتہ اس نور کے اثرات اور برکات ان پر ان کے گھروں میں باقی رہیں گے۔
(سنن ابن ماجة، السنة، رقم الحدیث: 184) 3۔
حضرت ابوزرین عقیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم سب قیامت کے دن الگ الگ اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیوں نہیں! میں نے دریافت کیا:
مخلوق میں اس کی کوئی علامت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ابوزرین! کیا تم چودھویں رات کے چاند کو تنہائی میں نہیں دیکھتے ہو؟
“ ابوزرین نے عرض کی:
کیوں نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلاشبہ چاند تو اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ تو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4731) 4۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر اہل ایمان اپنے رب کو پہچان لیں گے، گویا یہ پنڈلی ایک شاختی علامت ہے۔
اسے ہم ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کرتے ہیں۔
اس حدیث میں درج ذیل آیت کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور انھیں سجدے کی طرف بلایا جائے گا تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
“ (القلم۔
68/42) 5۔
بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
”جس دن حقائق سے پردہ اٹھا دیا جائے گا
“ اگرچہ اہل عرب ان الفاظ کو محاورے کے طور پر اس معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن ارشاد نبوی کے مقابلے میں ایسے محاورے کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کیسی ہے؟ کیا یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے؟ تو ہم ایسی باتوں کو معلوم کرنے کا مکلف نہیں ہیں۔
ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پنڈلی کا ذکر کیا ہے تو ہمیں اسے مبنی برحقیقت تسلیم کرنا چاہیے۔
اس کے آگے اس پنڈلی کی کیفیت معلوم کرنا یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نہ ہم اس کے پابند ہی ہیں۔
اس حدیث میں پل صراط کا بھی ذکر ہے کہ اس پر آنکڑے، چوڑے چوڑے کانٹے ہوں گے۔
ایک حدیث میں ہے:
”وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہو گا۔
“ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 455(183)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سب لوگ دوزخ پر پہنچیں گے، پھر اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے واپس ہوں گے۔
پہلا گروہ بجلی کی چمک کی طرح نکل جائے گا۔
دوسرا ہوا کی طرح، تیسرا گھوڑ سوار کی طرح، چوتھا اونٹ سوار کی طرح، پانچواں دوڑنے والے کی طرح اور چھٹا جیسے پیدل آدمی چلتا ہو۔
(جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3159)
البتہ صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پل صراط کے اوپر سے گزرنے والوں کی چار قسمیں ہوں گی:
۔
وہاں سے صحیح سالم گزرنے والے، پھر یہ لوگ تیزی سے گزرنے کے اعتبار سے چند قسموں پر مشتمل ہوں گے:
۔
زخمی حالت میں اسے عبور کرنے والے۔
بعض کو ہلکے زخم آئیں گے اور کچھ چھل چھلا کر اسے پار کریں گے۔
۔
کچھ لوگ زخموں کی تاب نہ لاکر جہنم میں گرپڑیں گے، بعد میں انھیں ایمانی، درجات کے پیش نظر نکالا جائے گا۔
۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں ان کے اعمال اٹھا نہیں سکیں گے بلکہ وہ گھسٹ گھسٹ کر اسے عبور کریں گے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 126/2)