صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
(24) Chapter. The Statement of Allah: “Some faces that Day shall be Nadirah (shining and radiant). Looking at their Lord.” (V.75:22,23)
حدیث نمبر: 7437
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي هريرة،" ان الناس قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل تضارون في القمر ليلة البدر؟، قالوا: لا يا رسول الله، قال: فهل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب؟، قالوا: لا يا رسول الله، قال: فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة، فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه، فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس، ويتبع من كان يعبد القمر القمر، ويتبع من كان يعبد الطواغيت الطواغيت، وتبقى هذه الامة فيها شافعوها او منافقوها شك إبراهيم، فياتيهم الله، فيقول: انا ربكم، فيقولون: هذا مكاننا حتى ياتينا ربنا، فإذا جاءنا ربنا عرفناه فياتيهم الله في صورته التي يعرفون، فيقول: انا ربكم، فيقولون: انت ربنا، فيتبعونه ويضرب الصراط بين ظهري جهنم، فاكون انا وامتي اول من يجيزها ولا يتكلم يومئذ إلا الرسل ودعوى الرسل يومئذ اللهم سلم سلم وفي جهنم كلاليب مثل شوك السعدان؟ هل رايتم السعدان، قالوا: نعم يا رسول الله، قال: فإنها مثل شوك السعدان غير انه لا يعلم ما قدر عظمها إلا الله تخطف الناس باعمالهم، فمنهم الموبق بقي بعمله، او الموثق بعمله، ومنهم المخردل او المجازى او نحوه، ثم يتجلى حتى إذا فرغ الله من القضاء بين العباد واراد ان يخرج برحمته من اراد من اهل النار امر الملائكة ان يخرجوا من النار من كان لا يشرك بالله شيئا ممن اراد الله ان يرحمه ممن يشهد ان لا إله إلا الله، فيعرفونهم في النار باثر السجود تاكل النار ابن آدم إلا اثر السجود حرم الله على النار ان تاكل اثر السجود، فيخرجون من النار قد امتحشوا، فيصب عليهم ماء الحياة فينبتون تحته كما تنبت الحبة في حميل السيل، ثم يفرغ الله من القضاء بين العباد ويبقى رجل منهم مقبل بوجهه على النار هو آخر اهل النار دخولا الجنة، فيقول: اي رب، اصرف وجهي عن النار فإنه قد قشبني ريحها واحرقني ذكاؤها، فيدعو الله بما شاء ان يدعوه، ثم يقول الله: هل عسيت إن اعطيتك ذلك ان تسالني غيره؟، فيقول: لا وعزتك لا اسالك غيره ويعطي ربه من عهود ومواثيق ما شاء، فيصرف الله وجهه عن النار، فإذا اقبل على الجنة ورآها سكت ما شاء الله ان يسكت، ثم يقول: اي رب، قدمني إلى باب الجنة، فيقول الله له: الست قد اعطيت عهودك ومواثيقك ان لا تسالني غير الذي اعطيت ابدا؟ ويلك يا ابن آدم ما اغدرك، فيقول: اي رب، ويدعو الله، حتى يقول: هل عسيت إن اعطيت ذلك ان تسال غيره؟، فيقول: لا وعزتك لا اسالك غيره ويعطي ما شاء من عهود ومواثيق، فيقدمه إلى باب الجنة، فإذا قام إلى باب الجنة، انفهقت له الجنة، فراى ما فيها من الحبرة والسرور فيسكت ما شاء الله ان يسكت، ثم يقول: اي رب، ادخلني الجنة، فيقول الله: الست قد اعطيت عهودك ومواثيقك ان لا تسال غير ما اعطيت، فيقول: ويلك يا ابن آدم ما اغدرك، فيقول: اي رب، لا اكونن اشقى خلقك فلا يزال يدعو حتى يضحك الله منه، فإذا ضحك منه قال له: ادخل الجنة، فإذا دخلها، قال: الله له تمنه، فسال ربه وتمنى حتى إن الله ليذكره، يقول: كذا وكذا حتى انقطعت به الاماني، قال الله: ذلك لك ومثله معه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ النَّاس قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتْبَعْهُ، فَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ، وَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ، وَيَتْبَعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا شَافِعُوهَا أَوْ مُنَافِقُوهَا شَكَّ إِبْرَاهِيمُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَنَا رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَتْبَعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُهَا وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ؟ هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ، قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُوبَقُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، أَوِ الْمُوثَقُ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُخَرْدَلُ أَوِ الْمُجَازَى أَوْ نَحْوُهُ، ثُمَّ يَتَجَلَّى حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ قَدِ امْتُحِشُوا، فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ تَحْتَهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَيَبْقَى رَجُلٌ مِنْهُمْ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ هُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَدْعُو اللَّهَ بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَهُ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَنِي غَيْرَهُ؟، فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ، فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَسْتَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ أَبَدًا؟ وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، وَيَدْعُو اللَّهَ، حَتَّى يَقُولَ: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ أُعْطِيتَ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟، فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ وَيُعْطِي مَا شَاءَ مِنْ عُهُودٍ وَمَوَاثِيقَ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا قَامَ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْحَبْرَةِ وَالسُّرُورِ فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: أَلَسْتَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ وَمَوَاثِيقَكَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ، فَيَقُولُ: وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، لَا أَكُونَنَّ أَشْقَى خَلْقِكَ فَلَا يَزَالُ يَدْعُو حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ مِنْهُ، فَإِذَا ضَحِكَ مِنْهُ قَالَ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِذَا دَخَلَهَا، قَالَ: اللَّهُ لَهُ تَمَنَّهْ، فَسَأَلَ رَبَّهُ وَتَمَنَّى حَتَّى إِنَّ اللَّهَ لَيُذَكِّرُهُ، يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا حَتَّى انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ: ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ تم میں جو کوئی جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔ چنانچہ جو سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے ہو جائے گا، جو چاند کی پوجا کرتا تھا وہ چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور جو بتوں کی پوجا کرتا تھا وہ بتوں کے پیچھے لگ جائے گا (اسی طرح قبروں، تعزیوں کے پجاری قبروں، تعزیوں کے پیچھے لگ جائیں گے) پھر یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں بڑے درجہ کے شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے یا منافق بھی ہوں گے ابراہیم کو ان لفظوں میں شک تھا۔ پھر اللہ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ جواب دیں گے کہ ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارا رب آ جائے، جب ہمارا رب آ جائے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ اقرار کریں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ چنانچہ وہ اس کے پیچھے ہو جائیں گے اور دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے اور اس دن صرف انبیاء بات کر سکیں گے اور انبیاء کی زبان پر یہ ہو گا۔ اے اللہ! مجھ کو محفوظ رکھ، مجھ کو محفوظ رکھ۔ اور دوزخ میں درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سعدان کے کانٹوں ہی کی طرح ہوں گے البتہ وہ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس کا طول و عرض اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے میں اچک لیں گے تو ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو تباہ ہونے والے ہوں گے اور اپنے عمل بد کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر جائیں گے یا اپنے عمل کے ساتھ بندھے ہوں گے اور ان میں بعض ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یا بدلہ دئیے جائیں گے یا اسی جیسے الفاظ بیان کئے۔ پھر اللہ تعالیٰ تجلی فرمائے گا اور جب بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہو گا اور دوزخیوں میں سے جسے اپنی رحمت سے باہر نکالنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں دوزخ سے باہر نکالیں، یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرنا چاہے گا۔ ان میں سے جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشان سے دوزخ میں پہچانیں گے۔ دوزخ ابن آدم کا ہر عضو جلا کر بھسم کر دے گی سوا سجدہ کے نشان کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو جلائے (یا اللہ! ہم گنہگاروں کو دوزخ سے محفوظ رکھیو ہم کو تیری رحمت سے یہی امید ہے) چنانچہ یہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ یہ جل بھن چکے ہوں گے۔ پھر ان پر آب حیات ڈالا جائے گا اور یہ اس کے نیچے سے اس طرح اگ کر نکلیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہو گا۔ ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہو گا، وہ ان دوزخیوں میں سب سے آخری انسان ہو گا جسے جنت میں داخل ہونا ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! میرا منہ دوزخ سے پھیر دے کیونکہ مجھے اس کی گرم ہوا نے پریشان کر رکھا ہے اور اس کی تیزی نے جھلسا ڈالا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے وہ اس وقت تک دعا کرتا رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں گا تو تو مجھ سے کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور وہ شخص اللہ رب العزت سے بڑے عہد و پیمان کرے گا۔ چنانچہ اللہ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھے گا تو اتنی دیر خاموش رہے گا جتنی دیر اللہ تعالیٰ اسے خاموش رہنے دینا چاہے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! مجھے صرف جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے دیا ہے اس کے سوا اور کچھ کبھی تو نہیں مانگے گا؟ افسوس ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ کہے گا: اے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو اس کے سوا کچھ اور مانگے گا؟ وہ کہے گا تیری عزت کی قسم! اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا اور جتنے اللہ چاہے گا وہ شخص وعدہ کرے گا۔ چنانچہ اسے جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ پھر جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا تو جنت اسے سامنے نظر آئے گی اور دیکھے گا کہ اس کے اندر کس قدر خیریت اور مسرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جتنی دیر چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا۔ پھر کہے گا: اے رب! مجھے جنت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا کیا تو نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ جو کچھ میں نے تجھے دے دیا ہے اس کے سوا تو اور کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس! ابن آدم تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کر بدبخت نہ بنا۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں پر ہنس دے گا، جب ہنس دے گا تو اس کے متعلق کہے گا کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ جنت میں اسے داخل کر دے گا تو اس سے فرمائے گا کہ اپنی آرزوئیں بیان کر، وہ اپنی تمام آرزوئیں بیان کر دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں چیز، فلاں چیز، یہاں تک کہ اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ آرزوئیں اور انہی جیسی تمہیں ملیں گی۔ ( «اللھم ارزقنا آمین»)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated 'Ata' bin Yazid Al-Laithi: On the authority of Abu Huraira: The people said, "O Allah's Apostle! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" The Prophet said, "Do you have any difficulty in seeing the moon on a full moon night?" They said, "No, O Allah's Apostle." He said, "Do you have any difficulty in seeing the sun when there are no clouds?" They said, "No, O Allah's Apostle." He said, "So you will see Him, like that. Allah will gather all the people on the Day of Resurrection, and say, 'Whoever worshipped something (in the world) should follow (that thing),' so, whoever worshipped the sun will follow the sun, and whoever worshiped the moon will follow the moon, and whoever used to worship certain (other false) deities, he will follow those deities. And there will remain only this nation with its good people (or its hypocrites). (The sub-narrator, Ibrahim is in doubt.) Allah will come to them and say, 'I am your Lord.' They will (deny Him and) say, 'We will stay here till our Lord comes, for when our Lord comes, we will recognize Him.' So Allah will come to them in His appearance which they know, and will say, 'I am your Lord.' They will say, 'You are our Lord,' so they will follow Him. Then a bridge will be laid across Hell (Fire)' I and my followers will be the first ones to go across it and none will speak on that Day except the Apostles. And the invocation of the Apostles on that Day will be, 'O Allah, save! Save!' In Hell (or over The Bridge) there will be hooks like the thorns of As-Sa'dan (thorny plant). Have you seen As-Sa'dan? " They replied, "Yes, O Allah's Apostle!" He said, "So those hooks look like the thorns of As-Sa'dan, but none knows how big they are except Allah. Those hooks will snap the people away according to their deeds. Some of the people will stay in Hell (be destroyed) because of their (evil) deeds, and some will be cut or torn by the hooks (and fall into Hell) and some will be punished and then relieved. When Allah has finished His Judgments among the people, He will take whomever He will out of Hell through His Mercy. He will then order the angels to take out of the Fire all those who used to worship none but Allah from among those whom Allah wanted to be merciful to and those who testified (in the world) that none has the right to be worshipped but Allah. The angels will recognize them in the Fire by the marks of prostration (on their foreheads), for the Fire will eat up all the human body except the mark caused by prostration as Allah has forbidden the Fire to eat the mark of prostration. They will come out of the (Hell) Fire, completely burnt and then the water of life will be poured over them and they will grow under it as does a seed that comes in the mud of the torrent. Then Allah will finish the judgments among the people, and there will remain one man facing the (Hell) Fire and he will be the last person among the people of Hell to enter Paradise. He will say, 'O my Lord! Please turn my face away from the fire because its air has hurt me and its severe heat has burnt me.' So he will invoke Allah in the way Allah will wish him to invoke, and then Allah will say to him, 'If I grant you that, will you then ask for anything else?' He will reply, 'No, by Your Power, (Honor) I will not ask You for anything else.' He will give his Lord whatever promises and covenants Allah will demand. So Allah will turn his face away from Hell (Fire). When he will face Paradise and will see it, he will remain quiet for as long as Allah will wish him to remain quiet, then he will say, 'O my Lord! Bring me near to the gate of Paradise.' Allah will say to him, 'Didn't you give your promises and covenants that you would never ask for anything more than what you had been given? Woe on you, O Adam's son! How treacherous you are!' He will say, 'O my lord,' and will keep on invoking Allah till He says to him, 'If I give what you are asking, will you then ask for anything else?' He will reply, 'No, by Your (Honor) Power, I will not ask for anything else.' Then he will give covenants and promises to Allah and then Allah will bring him near to the gate of Paradise. When he stands at the gate of Paradise, Paradise will be opened and spread before him, and he will see its splendor and pleasures whereupon he will remain quiet as long as Allah will wish him to remain quiet, and then he will say, O my Lord! Admit me into Paradise.' Allah will say, 'Didn't you give your covenants and promises that you would not ask for anything more than what you had been given?' Allah will say, 'Woe on you, O Adam's son! How treacherous you are! ' The man will say, 'O my Lord! Do not make me the most miserable of Your creation,' and he will keep on invoking Allah till Allah will laugh because of his sayings, and when Allah will laugh because of him, He will say to him, 'Enter Paradise,' and when he will enter it, Allah will say to him, 'Wish for anything.' So he will ask his Lord, and he will wish for a great number of things, for Allah Himself will remind him to wish for certain things by saying, '(Wish for) so-and-so.' When there is nothing more to wish for, Allah will say, 'This is for you, and its equal (is for you) as well."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 532


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري806هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا قال فإنكم ترونه كذلك يحشر الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبع فمنهم من يتبع الشمس ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت
   صحيح البخاري7437هل تضارون في القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال فهل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد القمر
   صحيح مسلم451هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال هل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد ا
   جامع الترمذي2554تضامون في رؤية القمر ليلة البدر وتضامون في رؤية الشمس قالوا لا قال فإنكم سترون ربكم كما ترون القمر ليلة البدر لا تضامون في رؤيته
   مسندالحميدي1212هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7437 کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7437  
تخريج الحديث:
[115۔ البخاري فى: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالىٰ: وجوه يومئذ ناضرة۔۔۔ 22 مسلم 183]

لغوی توضیح:
«تُضَارُوْنَ» تم تکلیف محسوس کرتے ہو۔
«صَحْوًا» صاف، جب آسمان پر بادل نہ ہو۔
«الْاَوْثَان» جمع ہے «وَثَن» کی، معنی ہے بت۔
«غُبَّرَات» باقی رہنے والے۔
«سَرَاب» وہ ریت جو دوپہر کو چمک کی وجہ سے پانی معلوم ہوتی ہے۔
«الْحَسْر» پل
«مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ» دونوں کا ایک ہی معنی ہے، پھسلنے کی جگہ۔
«خَطَاطِيفُ» جمع ہے خطاف کی اور «کـَلالِیب» جمع ہے «كلوب» کی، دونون کا معنی ایک ہی ہے، ایسا لوہا جوسرے سے مڑا ہوا ہو۔
«حَسَكَة» سعدان بوٹی کے کانٹے۔
«اَجَاوِيد» جمع ہے «اَجْوَاد» کی اور «اجَواد» جمع ہے «جَوَاد» کی، معنی ہے تیز رفتار، عمدہ۔
«الْخَيْل» گھوڑے۔
«الرُّكَاب» اونٹ۔
«مَخْدُوش» خراشیں لگے ہوئے، نوچے ہوئے۔
«مَكْدُوْس» دھکیلے گئے۔
«مَنَاشَدَه» مطالبہ۔
«امْتُحِشُوْا» جنہیں جلا دیا گیا۔
«حَافَتَيْه» اس کے دونوں کنارے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 115   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1212  
1212- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دوپہر کے و قت جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چودھویں رات میں جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں چاند کو دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے پروردگار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1212]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن لوگوں کو اپنا دیدار کروائیں گے، اس حدیث سے منکرین وجود باری تعالیٰ کا رد ہوتا ہے۔
بات کی پختگی کے لیے قسم کھا نا جائز ہے، اللہ تعالیٰ کلام بھی کرتے ہیں۔ دنیا کی جتنی چیزیں انسان کے تابع ہیں خود انسان ان پر ذرہ برابر بھی طاقت نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کیا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن جسم کے تمام اعضاء کو قوت گویائی عطا فرمائے گا۔
اس حدیث سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ہم قیامت اور روز قیامت ہونے والے تمام غیبی معاملات پر ایمان رکھتے ہیں، جنت برحق ہے، جہنم برحق ہے، جنت کی نعمتیں برحق ہیں اور جہنم کی سزائیں برحق ہیں، پل صراط برحق ہے، جنت کے دروازے برحق ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1210   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 451  
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چودھویں کا چاند دیکھنے میں (اژدحام کی وجہ سے) ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ ﷺ نے فرمایا: کیا سورج جب اس کے ورے بادل حائل نہ ہوں، دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: تم اللہ کو بھی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:451]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
تُضَارُّونَ:
ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا،
باب مفاعلہ سے ہے،
جو ضر (تکلیف پہنچانا یا نقصان پہنچانا)
سے ماخوذ ہے۔
اگر ضَرَّ،
يَضُرُّ ضَرًّا سے مانیں تو معنی ہو گا:
دکھ اور تکلیف پہنچنا اور مضارع مجہول ہو گا،
مفاعلہ کی صورت میں معروف ہو گا۔
اور مفاعلہ کی صورت میں (ر)
مشدد ہو گی اصل میں ہے تضاررون۔
(2)
الطَّوَاغِيتُ:
طَاغُوْتٌ کی جمع ہے،
اللہ تعالیٰ کے سوا،
ہر معبود پر اس کا اطلاق ہوتا ہے،
وہ جاندار ہو یا بے جان۔
(2)
يُضْرَبُ الصِّرَاطُ:
پل بچھا دیا جائے گا۔
(4)
أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ:
جوز سے ماخوذ ہے،
کسی مقام سے آگے بڑھنا،
مسافت طے کرنا۔
جَازَ الْمَكَانَ اور أَجَازَ الْمَكَانَ دونوں کا معنی ایک ہے،
گزرنا،
آگے بڑھنا۔
(5)
كَلَالِيبٌ:
كلاب کی جمع ہے،
لوہے کی مڑے ہوئے سر کی سلاخ،
آنکڑا،
جس پر گوشت بھونا جاتا ہے۔
(6)
شَوْك السَّعْدَانِ:
شَوْكٌ کی جمع أَشْوَاكٌ کانٹا،
سعدان ایک خاردار جھاڑی ہے جس کے کانٹے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔
(7)
بَقِيَ بِعَمَلِهِ:
اپنے عمل کے سبب بچ گیا،
لیکن ہندوستانی و پاکستانی نسخوں میں الموبق بعمله ہے۔
جو وبق (ہلاکت و تباہی)
سے ماخوذ ہے،
یعنی عملوں کے سبب ہلاک ہو کیا گیا۔
(8)
الْمُجَازَى:
جزاء سے ماخوذ ہے،
بدلہ دیا گیا۔
(9)
قَدِ امْتَحَشُوا:
مَخُشَ سے ماخوذ ہے،
چمڑے کا جل کر ہڈی کا ننگا ہو جانا۔
یعنی وہ جل چکے ہوں گے۔
(10)
حَبَّةٌ (ح)
پر زیر ہے،
جمع حِبَبٌ،
قدرتی بیج۔
(11)
قَشَبَنِي:
قشب سے ماخوذ ہے،
کھانے میں زہر ملانا۔
یعنی مجھ میں زہر بھر دی ہے،
میرے لیے اذیت و تباہی کا باعث ہے۔
یا بقول بعض میری شکل و صورت کو بدل دیا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
قیامت کو جنت میں جانے سے پہلے ہی مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا،
آغاز میں منافق بھی ساتھ ہوں گے،
لیکن پھرمومنوں اور منافقوں کے درمیان آڑ حائل ہوجائے گی،
جیسا کہ سورۂ حدید: 13 میں آیا ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صورت ہے جس میں دیکھ کر مومنوں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے،
اس صورت کے بغیر ان کے دلوں میں اس کا یقین پیدا نہیں ہوگا،
اس لیے وہ اس کے اللہ تعالیٰ ہونے پر مطمئن نہیں ہوں گے اور انکار کر دیں گے۔
(3)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو چودھویں رات کے چاند،
یا صاف سورج کے دیکھنے سے تشبیہ دی گئی؟ اس طرح رؤیت کی رؤیت سے تشبیہ ہے،
رؤیت دیدار مرئی دیکھی ہوئی چیزی یعنی اللہ تعالیٰ کی سورج وقمر سے تشبیہ نہیں ہے،
بلکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو سورج وچاند کے دیکھنے سے تشبیہ دی ہے،
کہ دیکھنے میں کوئی اژدھام اور تکلیف ومشقت نہیں ہے،
اللہ تعالیٰ کو چاند اور سورج سے تشبیہ نہیں دی ہے۔
مقصد یہ ہے جس طرح چاند اور سورج کے دیکھنے کے لیے اژدھام اور دھکم پیل کی صورت پیدا نہیں ہوتی،
ہر انسان بغیر کسی وقت وتکلیف کے اپنی اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار ہر مومن کو اپنی اپنی جگہ ہوجائے گا،
بھیڑ اور دھکم پیل نہیں ہوگی،
اور کسی کو اذیت وتکلیت سے دوچار نہں ہونا پڑے گا۔
(4)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ضحك (ہنسی)
اتیان (آمد)
صورت (شکل)
اور گفتگو (قول وکلام)
کا اثبات کیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے متصف ہے،
لیکن ان کی کیفیت وصفت کو بیان کرنا ممکن ہے،
اس لیے تشبیہ وتمثیل یا تاویل وتعطیل درست نہیں ہے۔
خالق کی صفات،
اس کے شایا ن شان ہیں۔
اور مخلوق کی صفات ان کی حیثیت اور مقام کے مطابق ہیں،
اس لیے صفات کے اثبات سے تشبیہ وتمثیل لازم نہیں آتی۔
(5)
اس حدیث میں جہنم کی پشت پر پل لگانے کا تذکرہ ہوا جس سے لوگوں نے گزرنا ہے،
اس کو ہولناکی کی بنا پر انبیاءؑ بھی "سَلِّمْ سَلِّمْ" بچا بچا کی صدا بلند کریں گے۔
(پل کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی) (6)
جہنم میں داخلہ کے بعد موحد انجام کار دوزخ سے نکال لیے جائیں گی،
اس کی تفصیل احادیث شفاعت میں آئے گی۔
(7)
جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ واضح طور پر اللہ تعالی کے لیے کلام ثابت کر رہا ہے،
اور یہ کلام لفظی ہے،
جس کو وہ فرد سنے گا اورجواب دے گا،
اس لیے متکلمین کی طرح صفت کلام میں تاویل کرنا درست نہیں ہے،
کہ اللہ کا کلام،
کلام نفسی ہے جو حروف وصورت سے خالی ہے،
کیونکہ کلام نفسی کو تو دوسرا سن نہیں سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 451   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔
اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔
ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔
ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔
ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔
وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔
اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔
اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔
جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔
حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔
نیز حدیث میں ماءالحیاة کا ذکر ہے۔
جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔
اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔
آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔
اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔
الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔
حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔
ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔
پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔
ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 806   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔
اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔
تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اب میری سفارش رہ گئی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔
ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7439)
واللہ أعلم۔
(2)
اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔
پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔
اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 556/11 و 481/2) (3)
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔
اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔
(عمدة القاري: 552/4)
واللہ أعلم۔
(4)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 806   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.