صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
88. بَابُ الْخُشُوعِ فِي الصَّلاَةِ:
88. باب: نماز میں خشوع کا بیان۔
(88) Chapter. Submissiveness in As-Salat (the prayer).
حدیث نمبر: 741
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"هل ترون قبلتي، ها هنا والله ما يخفى علي ركوعكم ولا خشوعكم وإني لاراكم وراء ظهري".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي، هَا هُنَا وَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ رُكُوعُكُمْ وَلَا خُشُوعُكُمْ وَإِنِّي لأَرَاكُمْ وَرَاءَ ظَهْرِي".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا منہ ادھر (قبلہ کی طرف) ہے۔ اللہ کی قسم تمہارا رکوع اور تمہارا خشوع مجھ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "You see me facing the Qibla; but, by Allah, nothing is hidden from me regarding your bowing and submissiveness and I see you from behind my back."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 708


   صحيح البخاري418عبد الرحمن بن صخرما يخفى علي خشوعكم ولا ركوعكم أراكم من وراء ظهري
   صحيح البخاري741عبد الرحمن بن صخرما يخفى علي خشوعكم ولا ركوعكم أراكم من وراء ظهري
   صحيح مسلم958عبد الرحمن بن صخرما يخفى علي خشوعكم ولا ركوعكم أراكم من وراء ظهري
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم187عبد الرحمن بن صخرهل ترون قبلتي هاهنا فوالله ما يخفى على خشوعكم ولا ركوعكم إني لاراكم من وراء ظهري
   مسندالحميدي991عبد الرحمن بن صخرترون قبلتي هذه؟ فما يخفى علي ركوعكم، ولا خشوعكم، أو ركوعكم، ولا سجودكم
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 741 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 741  
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ مہرنبوت سے دیکھ لیا کرتے تھے اور یہ آپ کے معجزات میں سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 741   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 187  
´نماز خشوع و خضوع سے پڑھنی چاہئیے`
«. . . 328- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هل ترون قبلتي هاهنا فوالله ما يخفى على خشوعكم ولا ركوعكم إني لأراكم من وراء ظهري. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میرا قبلہ یہاں دیکھتے ہو؟ اللہ کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع اور تمہارا رکوع مخفی نہیں ہے، میں تمہیں پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 187]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 418، ومسلم 424، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ حالت نماز میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو پیٹھ پیچھے سے بھی اسی طرح نظر آتا تھا جس طرح سامنے سے نظر آتا ہے اور یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے۔
➋ نماز پورے خشوع و خضوع سے پڑھنی چاہئے۔
➌ کبھی کبھار بشری تقاضوں اور لوگوں کی حرکات کی وجہ سے نماز میں توجہ بَٹ سکتی ہے لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 328   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:991  
991- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایاہے: تم یہ سمجھتے ہو کہ میں قبلہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہوتا ہوں تمہارا رکوع کرنا اور تمہارا خشوع (راوی کوشک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:991]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قبلہ کی طرف ہی منہ کرتے تھے اور ادھر ہی دیکھتے تھے، نیز اس سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نماز میں آپ کو پیچھے والے لوگ بھی دکھائے جاتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 990   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:418  
418. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میرا منہ اس طرف سمجھتے ہو؟ اللہ کی قسم! مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع۔ اور میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:418]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مصالح مساجد کی طرف اشارہ فرمایا کہ امام کو چاہیے وہ مقتدیوں کے احوال پر نظر رکھے۔
اگر وہ نماز وغیرہ صحیح نہ پڑھتے ہوں تو انھیں تنبیہ کرے۔
اگر اسے دائیں بائیں التفات کرنا پڑے تو اس میں چنداں حرج نہیں۔
البتہ یہ التفات گوشہ چشم سے ہونا چاہیے اپنا منہ اور سینہ قبلے کی طرف رکھے، کیونکہ چہرے کا انحراف کراہت اور سینے کا انحراف فساد نماز کا حکم رکھتا ہے۔
بعض شارحین نے رکوع کی مناسبت سے خشوع سے مراد سجدہ لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ خشوع کو اپنے عموم پر رکھا جائے تاکہ تمام افعال نماز اس میں آجائیں خاص طور پر رکوع کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں کوتاہی زیادہ ہوتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جلد بازی میں بہت سے لوگ رکوع کا اتمام نہیں کرتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں خشوع کے بجائے سجود کے الفاظ ہیں۔
(فتح الباري: 666/1)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔
اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے، خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے، مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے، کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔
عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی، پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر ايسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت (معجزہ)
آپ کو حاصل تھا۔
امام بخاری ؒ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔
اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں، لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے، کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔
انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔
نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے (حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ)
کے الفاظ کہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کو خشوع اور اتمام ارکان کی طرف توجہ دینی چاہیے، نیز امام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو نماز سے متعلقہ مسائل واحکام پر متنبہ کرتا رہے۔
خاص طور پر اگر ان میں کوتاہی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے میں پوری توجہ کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 667/1)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 418   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.