(موقوف) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال:" كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة"، قال ابو حازم: لا، اعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال إسماعيل: ينمى ذلك ولم يقل ينمي.(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ"، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: لَا، أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔
Narrated Sahl bin Sa`d: The people were ordered to place the right hand on the left forearm in the prayer. Abu Hazim said, "I knew that the order was from the Prophet ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 707
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 740
حدیث حاشیہ: شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم يذكر سهل ابن سعد في حديثه محل وضع اليدين من الجسد، وهو عندنا على الصدر لما ورد في ذلك من أحاديث صريحة قوية. فمنها حديث وائل بن حجر قال: "صليت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره"، أخرجه ابن خزيمة في صحيحه ذكره الحافظ في بلوغ المرام والدراية والتخليص وفتح الباري. والنووي في الخلاصة وشرح المهذب وشرح مسلم للاحتجاج به على ما ذهبت إليه الشافعية من وضع اليدين على الصدر، وذكرهما هذا الحديث في معرض الاحتجاج به، وسكوتهما عن الكلام فيه يدل على أن حديث وائل هذا عندهما صحيح أو حسن قابل للاحتجاج۔ (مرعاة المفاتیح) یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔ اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماك عن قبیصة ابن هلب عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ینصرف عن یمینه وعن یسارہ و رأیته یضع هذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواة هذاالحدیث کلهم ثقات و إسنادہ متصل۔ (تحفة الأحوذي، ص: 216) یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔ تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے: حدثنا أبوتوبة حدثنا الهیثم یعني ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبهما علی صدرہ۔ (حوالہ مذکور) یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے (صلی اللہ علیه وسلم) چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ ﴿فصل لربك وانحر﴾ کی تفسیر میںروایت کیاہے یعنی ضع یدك الیمنی علی الشمال عندالنحر۔ یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔ حضرت علی ؓ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔ بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس بارے میں فرمایاہے: ورأی بعضهم أن یضعهما فوق السرة ورأی بعضهم أن یضعهما تحت السرة وکل ذلك واسعة عندهم۔ یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔ اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ ؓ سے روایت کیاہے کہ أن علیا قال السنة وضع الکف علی تحت السرة۔ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت في إسناد هذاالحدیث عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي وعلیه مدارهذاالحدیث وهوضعیف لایصلح للاحتجاج۔ یعنی میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں وهو حدیث متفق علی تضعیفه فإن عبدالرحمن بن إسحاق ضعیف بالاتفاق۔ یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ '' فتح الغفور في وضع الأیدي علی الصدور'' میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرة۔ (ناف کے نیچے) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرة کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائید مسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرة والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے: حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبري عن علقمة بن وائل الحضرمي عن أبیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم واضعا یمینه علی شماله في الصلوٰة۔ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔ دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔ پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ واللہ هوالموفق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 740
حافظ زبير على زئي رحمه الله، رد حدیث اشکال، صحیح بخاری 740
فوائد:
① اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آ جائیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ [سنن نسائي مع حاشية السندهي: ج1 ص 141 ح 890، ابوداود: ج1 ص112 ح 727]
? اسے ابن خزيمه [243/1 ح 48] اور ابن حبان [الاحسان: 202/2 ح 485] نے صحیح کہا ہے۔
❀ سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ: يضع هٰذه عليٰ صدره…. إلخ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ“[مسند احمد ج 5 ص 226 ح 22313، واللفظ له، التحقيق لا بن الجوزي ج 1 ص 283 ح 477 و فى نسخة ج 1 ص 338 و سنده حسن]
? سنن ابی داود [ح 756] وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے۔
◈ علامہ نووی نے کہا: ”عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔“[نصب الراية للزيلعي الحنفي314/1]
◈ نیموی فرماتے ہیں:
وفيه عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف ”اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ [حاشيه آثار السنن ح 330]
? مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ [208/2] وغیرہ کتابیں دیکھیں۔
◈ ہدایہ اولین کے حاشیہ [17، 102/1] میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
③ یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعا ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں، یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
④ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب تحت السرة ”ناف کے نیچے“ والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے کہا:
منكر الحديث [تقريب التهذيب: 2304] [ديكهئے مختصر الخلافيات للبيهقي: 342/1، تاليف ابن فرح الاشبيلي و الخلافيات مخطوط ص 37 ب و كتب اسماء الرجال]
⑤ بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے تحت السرة والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا [كذاب بقول البقاعي / الضوء اللامع 186/6] نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔
◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں: ”پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ تحت السرة (والی عبارت) نہیں ہے۔“[فيض الباري 267/2]
⑥ حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه على المذاهب الاربعة 251/1]
⑦ تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب المدونة میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا: ”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں۔“ امام مالک رحمہ اللہ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ [ديكهئے المدونة 76/1] اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔
⑧ جو لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی [74/20 ح 139] کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر كذاب ہے۔ [ديكهئے مجمع الزوائد 102/2]
? معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔
⑨ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں فوق السرة یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [امالي عبدالرزاق / الفوائد لابن مندة 234/2 ح 1899 و سنده صحيح]
⑩ سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب ”نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام“ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدلله!
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:740
حدیث حاشیہ: (1) مسئلہ مذکور کے متعلق پہلا اختلاف وضع وار سال کا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھے جائیں۔ انھیں کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ دوسرا اختلاف کیفیت سے متعلق ہے کہ ہاتھ کس طرح باندھے جائیں؟اور تیسرا اختلاف محل وضع کا ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟حدیث بالا میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور کچھ کیفیت کا بھی بیان ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے۔ لیکن کلائی کے کس مقام پر رکھا جائے اس کی وضاحت حضرت وائل بن حجر ؓ کی روایت میں بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں کی پشت پر، جوڑ پر اور کلائی پر رکھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 727) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نماز شروع کی تو اللہ اکبر کے بعد آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ لیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 896(401) ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 252) محل وضع کے متعلق بھی صراحت ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔ (صحیح ابن خزیمة، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاة……1/243، حدیث: 479) حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی حدیث کے مطابق بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔ سینے پر رکھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں کے رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسندأحمد: 226/5) زیر ناف ہاتھ باندھنے کی ایک حدیث بھی صحیح نہیں۔ سینے پر ہاتھ باندھنا عاجزی کی علامت، نماز میں فعل عبث سے رکاوٹ، دل کی حفاظت اور خشوع کے زیادہ مناسب ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگلا عنوان خشوع کے متعلق قائم کیا ہے۔ چونکہ دل نیت کا محل ہے، عام طور پر انسان جس چیز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اس پر دونوں ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ (فتح الباري: 291/2) ان روایات کے پیش نظر ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر،جوڑ اور کلائی پر آجائے۔ پھر دونوں کو سینے پر رکھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔ گویا ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں: ٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔ ٭دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھا جائے۔ ٭دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھا جائے۔ کلائی کو کلائی پر رکھ کر کہنی کو پکڑنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ (2) ہاتھ باندھنے کے متعلق مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کہ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف ہاتھ رکھیں۔ یہ تفریق غیر شرعی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مرد اور عورت کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ہاتھ زیر ناف بندھے جائیں تو بایاں ہاتھ اوپر اور دایاں نیچے ہوتا ہے جبکہ ہمیں اس کے برعکس حکم دیا گیا ہے، یعنی دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 740
اردو فتاوی، صحیح بخاری 740
دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینے پر ہے۔
چنانچہ ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تحقیق صحیح ابن خزیمہ " میں صحیح کہا ہے۔
نیز البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) میں کہتے ہیں:
"دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا ہی سنت میں ثابت ہے، جبکہ اس سے متصادم کوئی بھی عمل یا تو ضعیف ہے، یا پھر بے بنیاد ہے" انتہی
سندی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:
"مختصر یہ ہے کہ: جس طرح ہاتھوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں باندھنا ہی سنت ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، کوئی اور جگہ نہیں ہے، جبکہ یہ حدیث کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" تو اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب متفق ہیں" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی (حنبلی) مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی،ابن حجر رحمہما اللہ سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو ناف سے اوپر باندھا جائے، اس بارے میں امام احمد نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے، اور یہی موقف صحیح ترین ہے، تاہم اس بارے میں صریح نصوص کے بارے میں کچھ نقد کیا گیا ہے، لیکن بخاری کی روایت سہل بن سعد والی سے اس بات کی واضح تائید ہوتی ہے کہ ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، نیز سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں سب سے اچھی حدیث -اگرچہ اس پر کچھ نہ کچھ نقطہ چینی کی گئی ہے- وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا کرتے تھے""
"الشرح الممتع" (3/36، 37)