(مرفوع) حدثني محمد بن غرير الزهري، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدث ان عبيد الله بن عبد الله اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال موسى السبيل إلى لقيه، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شانه؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك؟ قال موسى: لا، فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر، فسال موسى السبيل إليه؟ فجعل الله له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه، وكان يتبع اثر الحوت في البحر، فقال لموسى فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة، فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، قال: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا، فكان من شانهما الذي قص الله عز وجل في كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔
Hum se Muhammed bin Ghurair Zohri ne bayan kiya, un se Ya’qoob bin Ibrahim ne, un se un ke baap (Ibrahim) ne, unhon ne Saleh se suna, unhon ne Ibn-e-Shihaab se, woh bayan karte hain ke unhein Ubaidullah bin Abdullah ne Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma ke waaste se khabar di ke woh aur Hurr bin Qais bin Hisn Fazaari Musa Alaihissalam ke saathi ke baare mein behas-o-takraar karne lage. Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma ne farmaaya ke woh Khazir Alaihissalam the. Phir un ke paas se Ubai bin Ka’b guzre to Abdullah bin Abbas Radhiallahu Anhuma ne unhein bulaaya aur kaha ke main aur mere yeh rafeeq Musa Alaihissalam ke us saathi ke baare mein behas kar rahe hain jis se unhon ne mulaqaat chaahi thi. Kya aap ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se is ke baare mein kuch zikr suna hai. Unhon ne kaha, haan main ne Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ko yeh farmaate huwe suna hai. Ek din Musa Bani Israel ki ek jama’at mein baithe huwe the ke itne mein ek shakhs aaya aur us ne aap se poocha kya aap jaante hain ke (duniya mein) koi aap se bhi badh kar aalim maujood hai? Musa Alaihissalam ne farmaaya nahi. Is par Allah Ta’ala ne Musa Alaih Islam ke paas Wahi bheji ke haan hamaara bandah Khazir hai (jis ka ilm tum se ziyada hai) Musa Alaihissalam ne Allah se daryaaft kiya ke Khazir Alaihissalam se milne ki kya soorat hai? Allah Ta’ala ne ek machli ko un se mulaqaat ki alamat qaraar diya aur un se keh diya ke jab tum us machli ko gum kar do to (waapas) laut jaao, tab Khazir se tumhaari mulaqaat hogi. Tab Musa (chale aur) darya mein machli ki alamat talaash karte rahe. Us waqt un ke saathi ne kaha jab hum paththar ke paas the, kya aap ne dekha tha, main us waqt machli ka kehna bhool gaya aur shaitaan hi ne mujhe us ka zikr bhula diya. Musa Alaihissalam ne kaha, usi maqam ki hamein talaash thi. Tab woh apne nishanaat-e-qadam par (pichle paaon) baatein karte huwe laute (wahaan) unhon ne Khazir Alaihissalam ko paaya. Phir un ka wahi qissa hai jo Allah ne apni kitaab Quran mein bayan kiya hai.
Narrated Ibn `Abbas: That he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of (the Prophet) Moses. Ibn `Abbas said that he was Al Khadir. Meanwhile, Ubai bin Ka`b passed by them and Ibn `Abbas called him, saying "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses' companion, whom Moses asked the way to meet. Have you heard the Prophet mentioning something about him? He said, "Yes. I heard Allah's Apostle saying, "While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him. "Do you know anyone who is more learned than you? Moses replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave Khadir (is more learned than you.)' Moses asked (Allah) how to meet him (Khadir). So Allah made the fish as a sign for him and he was told that when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses said to him: Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses said: 'That is what we have been seeking? (18.64) So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (And) what happened further to them is narrated in the Holy Qur'an by Allah. (18.54 up to 18.82)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 74
بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل السبيل إلى لقيه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان موسى صلى الله عليه يتبع أثر الحوت في البحر
بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا فأوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسأل موسى السبيل إليه فجعل الله له الحوت آية وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه وكان يتبع أثر الحوت في البحر فقال لموسى فتاه أرأيت إذ
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:74
حدیث حاشیہ: 1- امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ کتاب العلم میں اس واقعے کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے وطن میں رہتے ہوئے شرف علم کے حصول میں کامیابی نہ ہو تو اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے حتی کہ اگر اسے بحری سفر بھی کرنا پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ آپ جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر ہیں بحری سفر کیا جس کا مقصد ایک زائد از ضرورت علم کا حصول تھا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ضروری علوم تو پورے موجود تھے۔ 2۔ حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے علم و فضل کی وجہ سے انھیں اپنی مجلس مشاورت میں شامل کیا تھا۔ اس مقام پر ان کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اختلاف ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام ہیں یا کوئی اور۔ حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے علاوہ کس کا نام لیتے تھے؟ واضح رہے کہ اس واقعے کے متعلق ایک اور اختلاف بھی ہوا کہ اس موسیٰ علیہ السلام سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران ہیں جو بنی اسرائیل کے رسول اور صاحب کتاب تھے یا کوئی اور موسیٰ ہیں؟ یہ اختلاف حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک واعظ نوف البکالی کے درمیان ہوا۔ نوف البکالی کا موقف تھا کہ یہ کوئی اور موسیٰ ہیں کیونکہ اتنا بڑا نبی حضرت خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید فرمائی۔ (صحیح البخاري، کتاب العلم، حدیث: 122) اس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان کی جائے گی۔ 3۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ سمندری سفر حاجی، عمرہ کرنے والے اور غازی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے۔ (سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث: 2489) اس صحیح حدیث سے اس ضعیف حدیث کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ سمندری سفر طالب علم کےلیے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں التجارة فی البحر عنوان قائم کر کے اسے مزید واضح فرمایا ہے۔ 4۔ حضرت خضر زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ وہ نبی تھے یا ولی؟ نیز ان کے علم کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس حیثیت سے ان کی شاگردی اختیار فرمائی؟ یہ تمام مباحث التفسیر میں ذکر ہوں گے۔ بإذن اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 74
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:375
375- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیدنا خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: الله کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ سیدنا ابی بن کعب نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے ان سے سوال کیا گیا لوگوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:375]
فائدہ: راقم نے اس حدیث پر قدرے تفصیل سے اپنی شرح صحیح بخاری اور شرح مسلم میں بات کی ہے، اس موقع پر اس حدیث پر صرف ایک فائدہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کو ”عبـدا مـن عبادنا“(ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے، (الکہف: 65) کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا نام خضر اس لیے پڑا کہ وہ سفید زمین کے ایک قطع پر بیٹھے ہوئے تھے تو وہ ان کے پیچھے سرسبز ہوکر لہلہانے لگا۔ (صحیح البخاری: 3402) یہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آخر میں فرمایا: میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ (الکہف: 82) بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، جو وحی کی صورت میں انبیاء پر صادر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک مفصل حدیث میں ان کا یہ کہنا کہ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے، تم اسے نہیں جانتے۔ ولی کتنا بھی مقرب ہو، اس کا الہام حجت نہیں ہے، نہ وہ الہام سے کسی کو قتل کر سکتا ہے، ورنہ ہر مومن اللہ کا ولی ہے۔ (البقرہ: 257) وہ اللہ کے امر کا بہانہ بنا کر جسے چاہے گا قتل کر دے گا، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ محقق علماء جن میں امام بخاری رحمہ اللہ، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جیسے عظیم ائمہ شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ خضر ع علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو سورہ آل عمران کی آیت (81) کے مطابق ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ پر ایمان لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے، جبکہ ان کے آنے کا کہیں ذکر نہیں ہے، نہ کسی صحابی سے ان کے ملنے کا ذکر ہے، صحيح البخاری کی وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات سے ایک سو سال پورے ہونے تک زمین کی پشت پر جو بھی ہے، کوئی بھی ان میں سے زندہ نہیں رہے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر نہیں ہیں، بلکہ دریاؤں اور سمندروں میں رہتے ہیں، ان کا رد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا: کوئی بھی جان جو آج پیدا ہو چکی ہے، اس پر سو سال نہیں آئیں گے کہ وہ اس وقت زندہ ہو۔ (صحیح مسلم: 2538) جو لوگ سیدنا خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہیں، ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ تمام روایات جن میں خضر علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونے کا ذکر ہے، سب جھوٹی ہیں، اس واقعہ پر جامع تبصرہ دیکھنے کے لیے حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ کی کتاب“”تفسير القرآن الكريم“(2/ 551,560) کا مطالعہ کریں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 375
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:78
78. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ دریں اثنا ان کے پاس سے حضرت ابی بن کعب ؓ گزرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے حالات کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو ان کے حالات بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے:”ایک مرتبہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا بندہ خضر (آپ سے زیادہ عالم ہے)۔ حضرت موسیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:78]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے طلب علم کے لیے ہر طرح کے سفر کا جواز بلکہ استحباب ثابت کیا ہے، یعنی اگر طلب علم یا تجارت کی ضرورت ہے تو سفر کرنے کی اجازت ہے۔ جب دنیوی ضرورت کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے تو دینی ضرورت کے لیے اس کی ممانعت چہ معنی وارد؟2۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کی بنیاد یہ تھی کہ آپ نبی تھے اور انبیاء کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انانیت اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کے حضور عاجزی اور تواضع محبوب ہے اس لیے عتاب ہوا کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس سے مراد خاص جزئیات ہیں یقیناً اہل علم کو علم کی قدر ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خضر سے ملنے کی خواہش کی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 78