ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔
Hum se Muhammed bin Yousuf ne bayan kiya, un se Abu Mus-hir ne, un se Muhammed bin Harb ne, un se Zubaidi ne Zohri ke waaste se bayan kiya, woh Mahmood bin Ar-Rabee’ se naql karte hain, unhon ne kaha ke mujhe yaad hai ke (ek martaba) Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne ek dol se munh mein paani le kar mere chehre par kulli farmaayi, aur main us waqt paanch saal ka tha.
Narrated Mahmud bin Rabi`a: When I was a boy of five, I remember, the Prophet took water from a bucket (used for getting water out of a well) with his mouth and threw it on my face.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 77
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 77
� تشریح: بعض بچے ایسے بھی ذہین، ذکی، فہیم ہوتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر ہی میں ان کا بلوغ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایسا ہی بچہ مراد ہے اس سے ثابت ہوا کہ لڑکا یا گدھا اگر نمازی کے آگے سے نکل جائے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ دلیل لی ہے کہ لڑکے کی روایت صحیح ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت تک لڑکے ہی تھے۔ مگر آپ کی روایت کو مانا گیا ہے دوسری روایت میں محمود کا ذکر ہے جو بہت ہی کمسن تھے چونکہ ان کو یہ بات یاد رہی تو ان کی روایت معتبر ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلی شفقت اور برکت کے لیے ڈالی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 77
باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں کسی عمر کی کوئی قید نہیں لگائی صرف اشارہ فرمایا کہ کس عمر میں سماعت درست ہو گی اور دلیل کے طور پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو کہ جوانی کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہے پیش فرمائی اور اس کے بعد دوسری حدیث سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی پیش فرمائی جب کہ وہ پانچ برس کے تھے۔ اب مناسبت یہ ہو گی کہ جب لڑکا سمجھداری اور تحمل سے حدیث نقل فرمائے تو بغیر عمر کی قید کے روایت درست مانی جائے گی، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں کسی عمر کا تعین نہیں فرمایا اور نہ ہی بلوغیت کا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں۔ «مقصود الباب الاستدلال على ان البلوغ ليس شرطا فى التحمل .»[فتح الباري ج1 ص226] ”یعنی باب کا مقصود اس بات پر استدلال ہے کہ تحمل کے لیے بلوغیت کی کوئی قید نہیں۔“
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لا اختلاف فى أن أداء الحديث و تبليغه لا يغني الا من العاقل البالغ، وأما تحمله فيجوز من الصبي بعد ان يناهذ الاحتلام و اذا عقل فميز بين الخير و الشر، فأثبت مؤلف رحمه الله ذالك .»[شرح تراجم ابواب البخاري ص49] ”اس مسئلے میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ اداء حدیث کے لیے عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے، البتہ تحمل کے لیے بالغ ہونا ضروری نہیں، «صبي» جو کہ بلوغیت کے قریب ہو اور برائی اور اچھائی کے درمیان تمیز کر سکے اس کا تحمل درست ہے مؤلف (امام بخاری رحمہ اللہ) کا مقصد اسی کا اثبات ہے۔
◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں دو جزئی واقعات ذکر کیے ہیں۔ ان کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے صحت تحمل و سماع کے لیے کوئی حد معین نہیں بلکہ مطلق سن تمیز و تعقل سن صحت سماع و تحمل ہے۔“[حاشية السندي على صحيح البخاري، ج1، ص46] علامہ محمود حسن کی بھی یہی رائے ہے، دیکھئے: [الابواب و التراجم۔ ص 49]
فائدہ: محدثین کا اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہے کہ آیا کون سی عمر میں حدیث کا سماع معتبر رہے گا مختلف محققین نے مختلف آراء کو نقل فرمایا اور اپنے اپنے علم کے جوہر دکھلائے۔ ◈ امام ابن معین رحمہ اللہ کے نزدیک پندرہ سال اور بعض علماء کے نزدیک بیس سال کے سماع کو معتبر مانا جاتا ہے اور بعض نے دس سال کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ دیکھئے تفصیل کے لیے: [الكفاية فى علم الرواية ص 73] ◈ امام ابن معین رحمہ اللہ کا مؤقف پندرہ سال سماع حدیث کے لیے معتبر ہے اس مؤقف کو کئی محدثین نے مجروح قرار دیا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے سختی سے اس مؤقف کا رد فرمایا ہے۔ دیکھئے: [الكفاية ص 73] ◈ امام یزید بن ھارون رحمہ اللہ تیرہ سال کی تحدید کرتے ہیں۔ [الكفاية ص55] ◈ موسی بن ھارون حمال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب بچہ گائے اور دوسرے جانوروں میں فرق کر سکے تو وہ سن تحمل ہے۔ [الكفاية ص65] ◈ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: تحدید کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ وہ بچہ خطاب کو سمجھتا ہو اور جواب دے سکتا ہو، لہٰذا اگر کوئی بچہ جو پانچ سال کا بھی نہ ہوا ہو لیکن خطاب و جواب کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا سماع درست ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ کوئی پانچ سال سے زائد ہو چکا ہو لیکن خطاب و جواب کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو ایسے شخص کے سماع کا اعتبار نہیں۔ ↰ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی کو ”عقل و ضبط“ سے تعبیر کیا ہے کہ جب بچہ سمجھ جائے اور ضبط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا سماع درست ہے۔ [الكفاية ص 63] ◈ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قد حدد أهل الصنعة فى ذالك ان أقله سن محمود بن ربيع .»[ألالماع ص 58] ”یعنی تحمل کی کم سے کم مدت محمود بن ربیع کی ہے۔“
↰ جمہور جو بلوغیت کی قید نہیں لگاتے اور نہ ہی کسی سن کی تحدید کرتے ہیں ان کے دلائل وہ روایات ہیں جو صغار صحابہ رضی اللہ عنہم مثلاً سیدنا حسن و حسین، سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا سائب بن یزید، سیدنا مسور بن محزمہ، سیدنا انس بن مالک، سیدنا مسلم بن مخلد، سیدنا ابی سلمہ، سیدنا یوسف بن عبد اللہ بن سلام، سیدنا ابوالطفیل، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں، محدثین نے ان کی روایات میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی کہ یہ روایات بلوغ سے قبل کی ہیں یا یہ روایات بلوغ کے بعد کی۔ [فتح المغيث السخاوي ج2 ص308۔ المحدث الفاصل للرامهرمزي ص189]
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پندرہ سال کی عمر قتال کے لیے تو بالکل درست ہے کیونکہ اس میں جسمانی قوت کی ضرورت ہے اور جنگی مہارت کی، جبکہ تحمل حدیث میں تو عقل و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی میں عقل و ضبط موجود ہے تو اس کے لیے سماع حدیث کی اجازت ہے اور اس کا سماع معتبر ہے۔ [فتح الباري ج1 ص171]
بعض محدثین کے نزدیک پانچ سال کا سماع بھی معتبر ہے جیسا کہ محمود بن ربیع کی حدیث اس مسئلے پر واضح دال ہے۔ اس کے باوجود اگر گہرائی سے محدثین رحمہ اللہ علیہم کے مؤقف کو دیکھا جائے تو جمہور نے کسی عمر کی کوئی قید نہیں لگائی بلکہ سماع حدیث کا معتبر ہونے کے لیے فہم، تمیز اور استفادہ اور اہلیت کا اعتبار کو راجح قرار دیا ہے۔
◈ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکال دیا اور فرمایا «كخ كخ» یعنی ”اسے پھینک دو۔“[صحيح البخاري كتاب الزكاة رقم 1491] «كخ كخ» یہ وہ کلمہ ہے جو ایسے بچہ کے لیے بولا جاتا ہے جو رضاعت میں یا رضاعت کے قریب ہو۔ دیکھئے: [النكت اللزركشي 3/468] ↰ لہٰذا یہ راجح مؤقف ہے جس عمر میں بھی فہم و تمیز برقرار ہو وہ عمر سماع حدیث کے لیے معتبر ہے یہی قول امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ ديكهئے: [فتح المغيث 216/2، الكفاية62، مقدمه ابن الصلاح73]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:77
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سمجھدار بچے مجلس علم میں حاضر ہو سکتے ہیں اور اہل علم ان سے خوش طبعی بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ لعاب دہن ناپاک نہیں ہے۔ (فتح الباري: 227/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ نقل نہیں فرمایا کہ انھوں نے جنگ احزاب کے موقع پر اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ وہ بڑی تیزی سے بنو قریظہ کی طرف جا رہے ہیں اور اس وقت ان کی عمر صرف تین سال کی تھی۔ نقل نہ کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس واقعہ سے کوئی مسئلہ یا سنت ثابت نہیں ہوتی۔ جن روایات سے کوئی مسئلہ ثابت ہوتا تھا انھیں نقل فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 227/1) البتہ اس واقعے کو مناقب زبیر میں ذکرضرور کیا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبيﷺ، حدیث: 3720)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 77
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث660
´برتن میں کلی کرنے کا بیان۔` محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو وہ کلی یاد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈول میں کی تھی جس کا پانی ان کے کنوئیں سے بھرا گیا تھا۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 660]
اردو حاشہ: (1) حضرت محمود بن ربیع بن سراقہ رضی اللہ عنہ انصار کے قبیلہ بنو خزرج سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تشریف لائے تب یہ واقعہ پیش آیا۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ایسا کیا کہ گھر والوں کے لیے برکت کا باعث ہو۔
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہونے والی چیز میں برکت ہے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اور دوسری اشیاء کو محفوظ رکھا لیکن صحابہ وتابعین نے کسی اور بزرگ شخصیت (صحابی یا تابعی) سے تعلق رکھنے والی کسی اور اشیاء کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر منہ میں پانی لے کر حضرت محمود رضی اللہ عنہ کے چہرے پر پھینکا تھا یعنی بچوں سے دل لگی کرنا جائز ہے۔
(5) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے استدلال کیا ہے کہ پانچ سال کا بچہ جب حدیث سنے تو یہ سند شمار کی جائے گی۔ (صحيح البخاري، العلم، باب متي يصح سماع الصغير، حديث: 77)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6354
6354. حضرت محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے یہ وہ بزرگ ہیں جن کے منہ پر رسول اللہ ﷺ نے کلی کا پانی ڈالا تھا وہ بچے تھے اور وہ پانی آپ نے ان کے کنویں سے لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6354]
حدیث حاشیہ: وہ بچہ انتہائی خوش قسمت ہونا چاہئے جس کے منہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کی کلی داخل ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6354