Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
16. بَابُ مَا ذُكِرَ فِي ذَهَابِ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَحْرِ إِلَى الْخَضِرِ:
باب: موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (جو موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے) کیا میں تمہارے ساتھ چلوں اس شرط پر کہ تم مجھے (اپنے علم سے کچھ) سکھاؤ۔
حدیث نمبر: 74
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ: إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ (دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو (واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 74 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:74  
حدیث حاشیہ:
1-
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ کتاب العلم میں اس واقعے کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے وطن میں رہتے ہوئے شرف علم کے حصول میں کامیابی نہ ہو تو اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے حتی کہ اگر اسے بحری سفر بھی کرنا پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ آپ جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر ہیں بحری سفر کیا جس کا مقصد ایک زائد از ضرورت علم کا حصول تھا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ضروری علوم تو پورے موجود تھے۔

حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے علم و فضل کی وجہ سے انھیں اپنی مجلس مشاورت میں شامل کیا تھا۔
اس مقام پر ان کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اختلاف ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام ہیں یا کوئی اور۔
حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے علاوہ کس کا نام لیتے تھے؟ واضح رہے کہ اس واقعے کے متعلق ایک اور اختلاف بھی ہوا کہ اس موسیٰ علیہ السلام سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران ہیں جو بنی اسرائیل کے رسول اور صاحب کتاب تھے یا کوئی اور موسیٰ ہیں؟ یہ اختلاف حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک واعظ نوف البکالی کے درمیان ہوا۔
نوف البکالی کا موقف تھا کہ یہ کوئی اور موسیٰ ہیں کیونکہ اتنا بڑا نبی حضرت خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جائے۔
یہ ناممکن ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید فرمائی۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم، حدیث: 122)
اس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان کی جائے گی۔

ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ سمندری سفر حاجی، عمرہ کرنے والے اور غازی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے۔
(سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث: 2489)
اس صحیح حدیث سے اس ضعیف حدیث کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ سمندری سفر طالب علم کےلیے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں التجارة فی البحر عنوان قائم کر کے اسے مزید واضح فرمایا ہے۔

حضرت خضر زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ وہ نبی تھے یا ولی؟ نیز ان کے علم کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس حیثیت سے ان کی شاگردی اختیار فرمائی؟ یہ تمام مباحث التفسیر میں ذکر ہوں گے۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 74   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:375  
375- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیدنا خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: الله کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ سیدنا ابی بن کعب ﷜ نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے ان سے سوال کیا گیا لوگوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:375]
فائدہ:
راقم نے اس حدیث پر قدرے تفصیل سے اپنی شرح صحیح بخاری اور شرح مسلم میں بات کی ہے، اس موقع پر اس حدیث پر صرف ایک فائدہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کو عبـدا مـن عبادنا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے، (الکہف: 65) کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا نام خضر اس لیے پڑا کہ وہ سفید زمین کے ایک قطع پر بیٹھے ہوئے تھے تو وہ ان کے پیچھے سرسبز ہوکر لہلہانے لگا۔ (صحیح البخاری: 3402) یہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آخر میں فرمایا: میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ (الکہف: 82) بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، جو وحی کی صورت میں انبیاء پر صادر ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک مفصل حدیث میں ان کا یہ کہنا کہ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے، تم اسے نہیں جانتے۔ ولی کتنا بھی مقرب ہو، اس کا الہام حجت نہیں ہے، نہ وہ الہام سے کسی کو قتل کر سکتا ہے، ورنہ ہر مومن اللہ کا ولی ہے۔ (البقرہ: 257) وہ اللہ کے امر کا بہانہ بنا کر جسے چاہے گا قتل کر دے گا، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
محقق علماء جن میں امام بخاری رحمہ اللہ، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جیسے عظیم ائمہ شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ خضر ع علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو سورہ آل عمران کی آیت (81) کے مطابق ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ پر ایمان لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے، جبکہ ان کے آنے کا کہیں ذکر نہیں ہے، نہ کسی صحابی سے ان کے ملنے کا ذکر ہے، صحيح البخاری کی وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات سے ایک سو سال پورے ہونے تک زمین کی پشت پر جو بھی ہے، کوئی بھی ان میں سے زندہ نہیں رہے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر نہیں ہیں، بلکہ دریاؤں اور سمندروں میں رہتے ہیں، ان کا رد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا: کوئی بھی جان جو آج پیدا ہو چکی ہے، اس پر سو سال نہیں آئیں گے کہ وہ اس وقت زندہ ہو۔ (صحیح مسلم: 2538)
جو لوگ سیدنا خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہیں، ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ تمام روایات جن میں خضر علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونے کا ذکر ہے، سب جھوٹی ہیں، اس واقعہ پر جامع تبصرہ دیکھنے کے لیے حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ کی کتابتفسير القرآن الكريم (2/ 551,560) کا مطالعہ کریں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 375   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:78  
78. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ دریں اثنا ان کے پاس سے حضرت ابی بن کعب ؓ گزرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے حالات کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو ان کے حالات بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے:ایک مرتبہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا بندہ خضر (آپ سے زیادہ عالم ہے)۔ حضرت موسیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:78]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے طلب علم کے لیے ہر طرح کے سفر کا جواز بلکہ استحباب ثابت کیا ہے، یعنی اگر طلب علم یا تجارت کی ضرورت ہے تو سفر کرنے کی اجازت ہے۔
جب دنیوی ضرورت کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے تو دینی ضرورت کے لیے اس کی ممانعت چہ معنی وارد؟2۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کی بنیاد یہ تھی کہ آپ نبی تھے اور انبیاء کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انانیت اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کے حضور عاجزی اور تواضع محبوب ہے اس لیے عتاب ہوا کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس سے مراد خاص جزئیات ہیں یقیناً اہل علم کو علم کی قدر ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خضر سے ملنے کی خواہش کی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 78