(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" دعوني ما تركتكم إنما هلك من كان قبلكم بسؤالهم واختلافهم على انبيائهم، فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، وإذا امرتكم بامر فاتوا منه ما استطعتم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو (اور سوالات وغیرہ نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Leave me as I leave you, for the people who were before you were ruined because of their questions and their differences over their prophets. So, if I forbid you to do something, then keep away from it. And if I order you to do something, then do of it as much as you can."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 391
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7288
حدیث حاشیہ: یعنی جس بات کا ذکر میں تم سے نہ کروں وہ مجھ سے مت پوچھو یعنی بلا ضرورت سوالات نہ کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7288
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7288
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز سے روک دیں، اس سے وہی شخص رکے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اداؤں اور سنتوں کو اختیار کرنے والا ہوگا اور جس چیز کے بجالانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں۔ اس پر بھی وہی شخص عمل کرے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنےوالا ہوگا۔ 2۔ بلاشبہ یہ حدیث جوامع الکلام اور قواعد اسلام پر مشتمل ہے۔ اس میں بلاضرورت سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ایمان والو!ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمھیں ناگوار ہوں۔ “(المآئده: 101) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوال نہ کیا کرو جن میں تمہارا نہ کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ کوئی دنیوی مفاد ہی وابستہ ہو کیونکہ خوامخواہ سوالات کرنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بنی اسرائیل کی واضح مثال ہے جب انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے بلاوجہ سوالات کر کے اپنے آپ پر پابندیاں لگوالیں، چنانچہ اگلے عنوان میں اس کی مذید وضاحت آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7288
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 32
´کثرت سوال سے پرہیز` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں تمہیں چھوڑوں تم مجھے چھوڑ دو (یعنی جن مسائل سے بھی میں بےاعتنائی برتوں تو تم ان میں بےجا مداخلت نہ کرو) بلاشبہ تم میں سے گزشتہ امتیں اپنے (بےجا) سوال کرنے اور انبیاء کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں۔ چنانچہ جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو تم اس سے اجتناب کرو، اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حتیٰ المقدور اس کی تعمیل کرو۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 32]
شرح الحديث: «ذَرُونِى مَا تَرَكْتُكُمْ» اس قطعۂ حدیث سے واضح ہے کہ فرمان رسول کا مقصود یہ ہے کہ بے جا سوالات ضیاع وقت کے مترادف ہیں، لہٰذا جو کچھ سنایا اور بتا دیا جائے فقط اس پر عمل پیرا ہونا ہی بہتر ہے اور لغویات سے قطعی طور پر گریز کرنا چاہیے۔ مزید برآں، یہ حدیث تفصیلاً صحیح مسلم، کتاب الحج میں مذکور ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں دوران خطبہ ارشاد فرمایا: اے لوگو! ذات باری تعالیٰ نے تم پر فریضۂ حج مقرر فرما دیا ہے، پس تمہیں چاہیے کہ تم لوگ حج کرو۔ اسی دوران کوئی صاحب کہنے لگے: یا رسول الله! کیا حج ہر سال کے لیے فرض ہوا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ اس صاحب نے یہی سوال تین دفعہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا، اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں (تیرے سوال کے جواب میں) "ہاں" کہہ دیتا تو (تم لوگوں پر) ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے۔ بعد از واقعہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وہی الفاظ ارشاد فرمائے، جو صحیفہ کی مذکورة حدیث میں گزر چکے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، اور یہ یقینی و بدیہی بات ہے کہ ہر سال ہر آدمی حج کی نہ تو طاقت رکھ سکتا اور نہ فریضۂ حج ادا کر سکتا۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا سنایا اور بتایا جائے فقط اسی پر اکتفائے عمل رکھو، تاکہ میری مخالفت کا اندیشہ تک پیدا نہ ہونے پائے۔
گزشتہ لوگ کثرت سوال اور انبیاء کے بتائے ہوئے احکامات سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کثرتِ سوال سے منع فرمایا اور خوف دلانے کے لیے اس بات سے بھی مطلع فرمایا کہ گزشتہ لوگوں کی تباہی کا باعث یہی کثرت سوال اور موصول جوابات کے خلاف عمل کرنا تھا۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، مگر انہوں نے آگے سے بے کار اور لغو قسم کے سوالات کرنا شروع کر دیئے کہ گائے کیسی ہو، اس کا رنگ کیسا ہو وغیرہ جبکہ انہیں حکم عام دیا گیا تھا کہ "ایک گائے کو ذبح کرو" مگر انہیں اس پر اطمینان نہ ہوا اور فضول سوالات کر کے اپنے آپ کو مزید مشکلات میں پھنسا دیا۔ (اس واقعہ کا تفصیلی ذکر سورة بقرة میں مذکور ہے) حافظ ابن حجر رحمة الله علیه اس حدیث کے تحت رقم طراز ہیں: "اس حدیث سے اس بات کا استدلال ہوتا ہے کہ (جب) شریعت کا حکم کسی چیز پر ثابت نہ ہو، تو اس (چیز کا حکم عدم وجوب والا ہوگا) کیونکہ اشیاء میں اصل عدم وجوب ہے، ہاں جب شریعت سے اس کا حکم ثابت ہو جائے، تو پھر ہم تسلیم کرتے ہیں ہم، جو مزاج شرع میں ہو۔ [فتح الباري: 261/13]
جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس سے رُک جاؤ: اس سے ظاہری مفہوم یہی نکلتا ہے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے اس سے اجتناب لازم ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکم فقط ان لوگوں کے لیے ہے جو عیش پرستی میں اپنی زندگیوں کو برباد کر رہے ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو حالت اضطرار میں ہوں، یعنی مجبور ہوں۔ بہرحال شریعت نے جن اشیاء سے روکا ہے ان سے کلی اجتناب کرنا چاہیے، البتہ کسی نفس پر حالت اضطراری میں اجتناب ضروری نہیں ہے۔ جیسا کہ خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے، جو اس اصول پر شاہد عدل ہے۔ «وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ»[الانعام: 119] "اور الله تعالیٰ نے تمہارے لیے محرمات کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے، مگر جن کی طرف تم لاچار کیے گئے ہو وہ محرمات مستثنٰی ہیں۔ " نیز الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر محرمات یعنی خون، مردار اور خنزیر کی حرمت بیان فرمائی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ قریباً ہر مقام پر حرمت سے متصل یہ ارشاد بھی فرمایا: «فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ» "جو نفس مجبور ہو جائے، تو اس کے لیے یہ محرکات جائز ہیں (بشرطیکہ) وہ حد سے تجاوز کرنے والا اور بغاوت کرنے والا نہ ہو۔ " اس ساری تشریح سے معلوم ہوا کہ مجبوری اور اضطراری حالت میں حرام شدہ اشیاء کا بقدر ضرورت استعمال جائز اور حلال ہے۔ حالت اضراری سے مراد وہ حالت ہے جو انسانی زندگی کو موت کے قریب پہنچا دے یا کم از کم انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ یاد رہے کہ حرام شدہ اشیاء کو دوا یا دواؤں میں ملاوٹ کے طور پر قطعاً استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے واضح اور بین فرامین کتب احادیث میں موجود ہیں، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "حرام اشیاء کا دوا کے طور پر استعمال (قطعاً) منع کر دیا۔ " [سنن ابو داود، كتاب الطب، رقم: 3870] - البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے۔ مزید برآں 'صحیح مسلم' میں سیدنا وائل رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ» "یہ شراب دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔ " حرام اشیاء سے شفاءیاب نہ ہونے کے متعلق سیدة ام سلمة رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَ أُمَّتِى فِيْمَا حَرَّمَ عَلَيْهَا» "یقیناً الله تعالیٰ نے میری امت کی شفاء یابی حرام شدہ اشیاء میں نہیں رکھی۔ "
جب میں تمہیں (کسی) کام کا حکم دوں تو تم بقدر استطاعت اس پر عمل کرو: امام نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: "رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک اسلام کے اہم اور عظیم ترین اصولوں میں سے ایک عظیم تر اصول ہے اور ساتھ ساتھ یہ کلام "جوامع الکلم" میں سے ہے، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بطور رحمت خاص عطا کیے گئے تھے۔ " [شرح مسلم، للنووي: 482/3] اس فرمان مبارک میں ان گنت احکامات کو سمو دیا گیا ہے۔ جن پر انسان بقدر استطاعت عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ جیسے فریضۂ نماز ہے۔ اب اس میں قوت نفس کا تعلق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہوکر فریضۂ نماز ادا نہیں کر سکتا، تو اسے اختیار ہے کہ بیٹھ کر ادا کرے، یہاں تک کہ اگر بیٹھ کر بھی ادا نہیں کر سکتا، تو لیٹ کر ادا کرلے، الغرض جتنی قوت نفس اپنے اندر رکھتا ہے پوری صداقت سے اس کے مطابق عمل کرے۔ اسی طرح وضو ہے کہ اگر کوئی شخص قوت نہ ہونے کے سبب بعض اعضائے وضو دھو سکتا ہے اور بعض کو نہیں، تو اس کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنی قوت کے مطابق جہاں تک ممکن ہو سکے اعضائے وضو دھو لے، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں حکم پر عمل کرنے کو قوت و استطاعت سے مقید کیا گیا ہے۔ وہ اس طرح کہ جس جگہ پر "امر" ہو، تو وہاں قوت و استطاعت کے مطابق عمل کیا جائے گا، جبکہ حدیث میں "نہی" کا ذکر ہوا، تو اسے مطلق رکھا گیا ہے۔ اس اصول سے جو حکمت دانست میں آتی ہے وہ یہ ہے منھیات (جن امور کے کرنے سے منع کیا گیا ہے) سے مطلقاً اجتناب لازم ہے اور منہی عنہ امور میں سے اگرچہ کسی ایک کا ارتکاب کیا جائے اور وہ بھی معمولی مقدار میں ہو، تو اس سے شریعت کی مخالفت لازم آئے گی، دوسرے نمبر پر مامور بہ (جن امور کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے) ہیں، جن سے حصول اتباع ہے۔ کیونکہ اوامر سے مقصود ہی دراصل امتثال ہے اور یہ مامور بہ پر معمولی مقدار عمل سے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ [هامش صحيح مسلم: 91/7، طبع دار التحريد]
استدلالات: اس حدیث سے استدلال کرنے پر چند امور سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں: 1- تمام اشیاء مباح ہیں، جب تک پیغمبر علیه السلام کی طرف سے نہی ثابت نہ ہو۔ مباح: وہ امور جن کے متعلق شریعت نے کوئی حکم صادر نہ فرمایا ہو اور نہ ہی شریعت کے کسی معاملہ میں ان سے کسی قسم کی مخالفت لازم آتی ہو۔ ان امور کو مباح کہتے ہیں۔ لہذا ایسے امور پر عمل کرنا اور انہیں ترک کرنا دونوں طرح درست ہے۔ بشرطیکہ انہیں شریعت کا کوئی حکم نہ سمجھا جائے۔ 2- بغیر وجہ کے سوالات کی پوچھاڑ کرنا اور پھر اس میں بحث و تمحیص کرنا۔ امام بغوی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: "سوال کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت سوال کا مقصود تعلیم حاصل کرنا اور وضاحت طلب کرنا ہو اور امور دین کے حوالہ سے ہو تو ایسی صورت میں سوال کرنا جائز، بلکہ تقاضائے فطرت کے مطابق ہے۔ اس فطری تقاضے کو قرآن اس انداز میں بیان فرماتا ہے: «فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»[النحل: 43، انبياء: 7] "کسی مسئلہ کو نہ جاننے کی صورت میں اہل علم سے سوال کر لیا کرو۔ " [شرح السنة: 1 / 310-311] علاوہ ازیں الله تعالیٰ کا یہ فرمان بھی سوال کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ «فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ»[يونس: 94] "آپ ان لوگوں سے پوچھئے جو آپ سے پہلے کتاب کو پڑھا کرتے تھے۔ " اس آیت پر غور کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی مسئلہ یا معاملہ میں تردد ہو، تو وہ سوال کر سکتا ہے۔ مزید برآں قرآن کریم کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے معقول اور امور دین سے متعلق سوالات کیا کرتے اور ان کے جواب کو باری تعالیٰ بذریعہ وحی قرآن میں نازل فرماتے، اور ان کے سوالات کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں: «يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ»[بقره: 189] «يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ»[بقرة: 222] "وہ (صحابہ رضی الله عنہم) آپ سے چاند اور حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ " اس قسم کے اور بھی سوالاتِ صحابہ قرآن میں مذکور ہیں۔ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ عدمِ علم کی وجہ سے سوال کرنا امور دین میں سے ہے۔ دوسری صورت: بلاوجہ سوال کرنا۔ ایسی صورت شرعاً ممنوع ہے، جیسا کہ صحیفہ کی زیر نظر حدیث اس پر شاہد ہے۔ اس کے علاوہ نبی صلی الله علیہ وسلم کر فرمان عالیشان موجود ہے: «إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، ......... وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ»[صحيح بخاري، كتاب الاستقراض، رقم: 2408] "یقیناً الله تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام کر دیا ہے (اس کے بعد مزید چند باتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا) الله تعالیٰ نے تم پر کثرت سوال کو بھی حرام فرمایا ہے۔ " مفسر کبیر امام رازی رحمة الله علیه نے اپنی تفسیر میں لفظ "یَسْئَلُوْنَكَ" کے تحت لکھتے ہیں: "قرآن حکیم میں جن سوالات کے جوابات "یَسْئَلُوْنَكَ" کے ساتھ دیئے گئے ہیں وہ تعداد میں کل چودہ ہیں، جن میں قریباً بارہ سوالات خود صحابہ کرام رضی الله عنہم کی طرف سے کیے گئے تھے۔ بقیہ دو سوال مشرکین و یہود کی طرف سے ہوئے، تو معلوم ہوا کہ 22 سال کے عرصۂ وحی میں یارانِ محمد رضی الله عنہم نے فقط 12 سوال کیے۔ اس بات سے پوری طرح منکشف ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کثرت سوال کے عادی نہ تھے، مزید یہ کہ صحابہ کرام خود فرماتے ہیں کہ ہم لوگ انتظار میں ہوتے تھے کہ کوئی دیہاتی شخص (اعرابی) یا کوئی نیا قافلہ یہاں تشریف لائے، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے امور دین کے متعلق سوالات کرے، جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو۔ " معلوم ہوا کہ بے جا سوالات سے گریز کرنا چاہیے اور ایسے سوالات کرنے چاہئیں جن پر ہماری کامیابی و کامرانی محمول ہے نہ کہ ایسے سوالات جن سے نہ تو ہمارے دین و ایمان کا تعلق ہو اور نہ ہی کامیابی و کامرانی سے واسطہ، جیسے کہا جاتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیه السلام کی والدہ کا نام کیا تھا، وغیرہ۔ غیر ضروری سوال کرنے سے جو نقصان جنم لیتا ہے، اس کو الله تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ»[المائده: 101] "ایسی باتوں کے متعلق مت سوال کیا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں، تو تم پر ناگوار گزریں، اور اگر تم زمانۂ نزولِ قرآن میں ان سے متعلق سوال کرو گے، تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔ " اس آیت سے واضح ہوگیا کہ جو کوئی بغیر کسی عذر کے سوال کرے اور ممکن ہے کہ اس سوال سے کوئی ایسا مسئلہ اخذ ہو جائے جس پر عمل کرنا اس کے لیے دشوار ہو۔ تو اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خواہ مخواہ گناہ گار ہو جائے گا۔ 3- اس حدیث سے اخذ ہونے والی تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ سوالات سے زیادہ توجہ عمل پر مرکوز ہونی چاہیے اور یہ بھی نہ ہو کہ علم تو وافر مقدار میں موجود ہو مگر عمل کا بازار بالکل ٹھنڈا پڑا ہو، بلکہ مقدار علم کے ساتھ ساتھ مقدار عمل بھی متوازی ہو۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ قیامت کب آئے گی؟ اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کچھ بھی نہیں، سوا اس کے کہ میں الله اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔“ انس رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ ”تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔“ انس رضی الله عنہ نے کہا کہ میں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور ان سے اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کر سکا۔ [صحيح بخاري، كتاب فضائل اصحاب النبي، رقم: 3688 - صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم: 6715] غور فرمائیں: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس شخص سے فرما رہے ہیں کہ تو نے قامت کے دن کے لیے کون سے اعمال تیار کر رکھے ہیں؟
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 32
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث 1
´اتباع سنت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں جس چیز کا حکم دوں اسے مانو، اور جس چیز سے روک دوں اس سے رک جاؤ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 1]
اردو حاشہ: (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم واجب التعمیل ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہی حکم ثابت ہوتا ہے۔
(2) جس کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیں، اس سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟﴾(الحشر: 7) ”اور رسول جو بھی تمہیں (حکم) دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روک دے۔ اس سے رک جاؤ۔ “
(3) اس سے یہ اصول ثابت ہوتا ہے کہ: «الأَمرُ لِلوُجُوبِ» یعنی «بِالعُمُوم» امر وجوب کے لیے ہوتا ہے، البتہ دوسرے قرائن کی موجودگی میں استحباب یا جواز بھی مراد ہو سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2
´اتباع سنت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز میں نے تمہیں نہ بتائی ہو اسے یوں ہی رہنے دو ۱؎، اس لیے کہ تم سے پہلے کی امتیں زیادہ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو طاقت بھر اس پر عمل کرو، اور جب کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے رک جاؤ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 2]
اردو حاشہ: (1) دنیوی معاملات میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ کام جائز ہے۔ جس سے قرآن و حدیث نے منع نہ کیا ہو۔ اس کے برعکس عبادات میں وہی کام جائز ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ اس لیے دینی امور میں نیا ایجاد کیا ہوا کام بدعت ہے، دنیوی معاملات میں نہیں۔
(2) ایسے فرضی مسائل کے بارے میں بحث مباحثہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جن کا عملی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
(3) پیغمبر علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی ہلاکت کا باعث ہے۔
(4) اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے ایک حکم کی تعمیل کی طاقت نہیں رکھتا، تو وہ اللہ کے ہاں مجرم نہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ: 286) ”اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔“
(5) جس کام سے شریعت نےمنع کیا ہو، اس سے مکمل طور پر پرہیز کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2679
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو، پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2679]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی خواہ مخواہ مسئلے مسائل پوچھ کر اپنے لیے تنگی اور دشواری نہ پیدا کرو، میرے بیان کرنے کے مطابق اس پر عمل کرو، کیوں کہ کثرت سوال سے اسی طرح پر یشانی میں پڑ سکتے ہو جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں کا حال ہوا، سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کا جو حال بیان ہوا وہ اس سلسلہ میں بے انتہا عبرت آموز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2679
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1159
1159- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں جن معاملات میں تمہیں چھوڑ دوں ان میں مجھے ویسے ہی رہنے دو کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے تھے اور میں جس چیز سے منع کروں اس سے بازآجاؤ جس چیز کا تمہیں حکم دوں اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو۔“ ابن عجلان نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں: میں نے یہ روایت ابان بن صالح کو سنائی، تو وہ ان الفاظ پر حیران ہوئے ”تم اپنی استطاعت کے مطابق ان پر عمل کرو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1159]
فائدہ: اس حدیث میں کثرت سوال سے مراد فضول قسم کے سوالات ہیں، اور اس میں وہ فروعی سوالات بھی شامل ہیں جن مسائل کا وجود ابھی تک ہوا ہی نہیں۔ نیز اس حدیث میں قرآن و حدیث سے مخالفت کی وجہ سے ہلاکت کی وعید ہے، کیونکہ انبیاء کی دعوت وحی کے مطابق ہوتی ہے، اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جو اختلاف کرے گویا وہ وحی الٰہبی کے ساتھ اختلاف کرتا ہے۔ مقلدین حضرات کھلم کھلی قرآن و حدیث کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ کیوں مخالفت کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ فرائض کی پابندی ہر مکلف پر ضروری ہے، اور مستحبات و نوافل میں استطاعت کے مطابق عمل کیا جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1157
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6113
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”جس چیز سے میں نے تمہیں روکا ہے، اس سے پرہیز کرو اور جس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دیا، اس کو مقدور بھر کرو، تم سے پہلے لوگوں کو محض زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء کی مخالفت کرنے کی پاداش میں ہلاک کیا گیا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:6113]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بقول علامہ خطابی، بلا ضرورت یا محض ضد و عناد اور ہٹ دھرمی کے سوال کرنے سے منع کیا گیا، کیونکہ بقول امام نووی، بلا ضرورت اور بال کی کھال اتارنے کے نتیجہ میں کوئی چیز حرام ہو سکتی تھی، جو مسلمانوں کے لیے مشقت کا باعث بنتی سوال کا جواب بھی ہو سکتا تھا، جو سائل کے لیے ناپسندیدگی اور مشقت کا سبب بنتا اور زیادہ سوال آپ کی تکلیف و اذیت کا باعث بھی بن سکتا تھا، جو رسوا کن عذاب کا سبب بنتا۔