وقوله تعالى: لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.وَقَوْلُهُ تَعَالَى: لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101.
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اسی طرح بےفائدہ سختی اٹھانا اور وہ باتیں بنانا جن میں کوئی فائدہ نہیں“ اور اللہ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا «لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم»”مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں۔“
ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔“
Narrated Sa`d bin Abi Waqqas: The Prophet said, "The most sinful person among the Muslims is the one who asked about something which had not been prohibited, but was prohibited because of his asking."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 392
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7289
حدیث حاشیہ: گو سوال تحریم کی علت نہیں مگر جب اس کی حرمت کا حکم سوالا کے بعد اترا تو گو یا سوال ہی اس کی حرمت کا باعث ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7289
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7289
حدیث حاشیہ: 1۔ مکلف انسان پر جو عبادات واعمال فرض عین ہے، اس کے متعلق اسے ضرور پوچھنا چاہیے اور اس سے زائد سوالات کرنے کے متعلق لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ وہ ا پنے اندر بصیرت اور سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو ایسے انسان کو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسے چاہیے کہ معلومات میں اضافے کے لیے سوال کرے تاکہ اس کی علمی بصیرت میں اضافہ ہو۔ دوسرا وہ شخص جس میں فہم وبصیرت کی استعداد نہیں ہے، اسے چاہیے کہ خوامخواہ سوالات کے چکر میں نہ پڑے بلکہ اپنے اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے۔ 2۔ واضح رہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اگر تمھیں علم نہ ہوتو اہل علم سے سوال کرو۔ “(النحل 16/43) یہ آیت مذکورہ حدیث کے منافی نہیں کیونکہ مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکم ثابت ہی نہیں تو اس کے متعلق سوال کرنا منع ہے اور آیت کریمہ میں ثابت شدہ حکم کے متعلق سوال کرنے کا جواز ہے کہ اس کی وضاحت طلب کی جا سکتی ہے یا اس کی نوعیت کیاہے؟ وہ واجب ہے یا یہ کہ مستحب وغیرہ معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن غیر ثابت شدہ حکم کی حلت وحرمت کے بارے میں سوال کرنا حدیث کی رو سے منع ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7289
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 153
´سب سے بڑا جرم کون؟` «. . . وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَن أعظم الْمُسلمين فِي لامسلمين جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ على النَّاس فَحرم من أجل مَسْأَلته» . . .» ”. . . سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے زیادہ مجرم اور گنہگار وہ آدمی ہے جس نے کوئی ایسی چیز دریافت کی جو لوگوں پر پہلے سے حرام نہیں تھی لیکن اس کے پوچھنے اور دریافت کرنے سے وہ چیز حرام ہو گئی۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 153]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 7289]، [صحيح مسلم 6116]
فقہ الحدیث: ➊ جس چیز کی ممانعت اور حرام ہونے کا ذکر کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ہے تو ایسے دنیاوی امور میں اصل یہ ہے کہ یہ چیزیں مباح ہیں الا یہ کہ شریعت میں اس کی ممانت وارد ہو۔ دیکھئے: [فتح الباري 269/13] ➋ فضول سوالات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ ➌ اس حدیث کا تعلق عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی دور نزول وحی کے ساتھ ہے۔ ➍ ایسا کام کرنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہو حرام ہے۔ ➎ مسئلہ پوچھتے وقت مفاد عامہ کا خیال ضرور رکھنا چاہئیے۔ ➏ سیاق و سباق اور حالات کے لحاظ سے بعض اوقات معمولی لغزش بھی بہت سنگین جرم بن جاتا ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4610
´سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4610]
فوائد ومسائل: دین کے احکام جس طرح ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتے ہیں، اسی طرح ان پر عمل کرنا چاہیے۔ اطاعت کے لیے یہ کافی ہے۔ خود ان احکام کے اندر مختلف پہلوؤں کو نکال کر سوال کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔ بغیر ضرورت بال کی کھال اتانے سے اپنے اور دوسروں کے لیے سخت دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، ان سے احترازکرتے ہوئے صدق نیت سے آیات واحادیث کے سہل اور عام مفہوم پر عمل کرنا کافی ہے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ملا۔ انہوں نے کیسی کس رنگ کی کس طرح کی گائے کے حوالے سے سوال کرنے شروع کردیے۔ ہر سوال سے گائے کی تخصیص ہوتی گئی اور اس طرح کی گائے ذبح کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ اللہ تعالی نے اس طریقے کار کو یہود کے غلط طریق پر محمول فرمایا۔ حکم ملتے ہی اگر وہ حسن نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کر دیتے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔ بہت زیادہ سوالات کرنا کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا بالخصوص ایسے سوالات جن کا عملی زندگی سے واسطہ نہ ہو۔ یا محض فرضی مسائل ہوں۔ اب اگرچہ حلت وحرمت کا دورتو نہیں، مگر علماء سے بھی لازمی اور ضروری سوالات ہی کرنے چاہییں جن کا تعلق حقیقت واقعہ سے ہو۔ فرضی صورتیں سوچ سوچ کر ان کے جواب مانگنا یا تلاش کرنا غیر صحت مند رویہ ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4610
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:67
67- عامر بن سعد اپنے والد محترم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہوتا ہے، جو کسی ایسے معاملے کے بارے میں سوال کرے، جسے حرام قرار نہیں دیا گیا تھا، اور پھر اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے حرام قرار دے دیا جائے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:67]
فائدہ: اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ بے جا فضول قسم کے سوالات کرنا ناپسندیدہ عمل ہے، اگر چہ حلال و حرام کا تعلق زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، اب کسی کے سوال کرنے سے کوئی چیز حلال یا حرام نہیں ہوگی، کیونکہ حلال وحرام واضح ہے لیکن اس کے باوجود فضول سوال کرنا مکروہ عمل ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 67