Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7275
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى شَيْبَةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ قَالَ: جَلَسَ إِلَيَّ عُمَرُ فِي مَجْلِسِكَ هَذَا، فَقَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِل، قَالَ: لِمَ قُلْتُ لَمْ يَفْعَلْهُ صَاحِبَاكَ؟ قَالَ: هُمَا الْمَرْءَانِ يُقْتَدَى بِهِمَا".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے واصل نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ اس مسجد (خانہ کعبہ) میں، میں شیبہ بن عثمان حجبی (جو کعبہ کے کلیدبردار تھے) کے پاس بیٹھا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تم بیٹھے ہو، وہیں عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں کسی طرح کا سونا چاندی نہ چھوڑوں اور سب مسلمانوں میں تقسیم کر دوں جو نذر اللہ کعبہ میں جمع ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ کہاں کیوں؟ میں نے کہا کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ دونوں بزرگ ایسے ہی تھے جن کی اقتداء کرنی ہی چاہیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7275 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7275  
حدیث حاشیہ:

حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبے کے اندر دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھے تھے تو وہیں ان کے پاس ابووائل شقیق بن سلمہ آکر بیٹھ گئے، پھر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو آخر میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میں ان دونوں بزرگوں کی اقتدا کرتا ہوں۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1594)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور ترک دونوں کی پیروی ضروری ہے۔

جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبے کا سونا چاندی مسلمانوں کے مصالح میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تو دربان کعبہ حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دیا کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی مخالفت کرنے کی گنجائش نہ رہی، گویا ان کے نزدیک ان بزرگوں کی اقتدا واجب تھی کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ بیت اللہ کی دیواریں زمین بوس ہو جائیں یا ان کی ترمیم کی ضرورت پڑے تو یہ مال اس ضرورت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اسے مسلمانوں کی ضرور بات پر خرچ کر دیا جائے تومعین مال اس ضرورت پر خرچ نہیں ہوسکے گا جس کے لیے اسے رکھا گیا ہے، اس لیے کہ لوگوں کی ضروریات اور مصالح پر کعبے کا مال خرچ کرنا جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7275