ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا ”اے اللہ! اسے قرآن کا علم سکھا۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7270
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ امت کے بڑے عالم ہوئے خاص طور پر علم تفسیر میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7270
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7270
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے خدمت گزار تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ر فع حاجت کے لیے گئے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی وغیرہ کا اہتمام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پانی دیکھا تو فرمایا: ”یہ کس نے رکھا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اہتمام کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے دین کے متعلق فقاہت عطا فرما۔ “(صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 143) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے سینہ مبارک سے چمٹایا اور دعا دی: ”اے اللہ! اسے حکمت اور دانائی کی تعلیم دے۔ “(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3756) مذکورہ حدیث کےآخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "حکمت" کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے: ”اصابت رائے جو نبوت کے علاوہ ہو۔ “2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس امت کے بہت بڑے عالم "حبرالأمة" ہوئے۔ خاص طور پر علم تفسیر میں ان کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”دعائیں دینے سے مقصود یہ تھا کہ کتاب وسنت کو سیکھ کر اسے مضبوطی سے تھام لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مقصود ہے۔ (عمدة القاري: 499/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7270
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:75
75. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینے سے لگایا اور دعا دی: ”اے اللہ! اسے اپنی کتاب کا علم عطا فرما۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:75]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ حصول علم میں جہاں طالب علم کی کاوش ضروری ہے، وہاں اس سے زیادہ انابت الی اللہ کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر مقصد میں کامیابی دشوار ہے۔ تحصیل علم کے متعلق انسان کو اپنی ذہانت و فطانت پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ عطیہ الٰہی اس کی مہر بانی کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کی مہربانی صالحین کی دعا سے ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ طالب علم بزرگوں کی خدمت میں حاضری دے اور پورے آداب واحترام کے ساتھ ان کے احکام کی بجا آوری کرے۔ 2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص شفقت حاصل ہونے کے متعلق دو واقعات کتب حدیث میں ملتے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق خدمت سے ہے جبکہ دوسرا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب و احترام کی بجا آوری سے متعلق ہے۔ 3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا تشریف لے گئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خدمت کے طور پر آپ کی سہولت کے لیے پانی بھر کردیا۔ جب آپ باہر سے تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ پانی کس نے رکھا تھا؟ معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت انجام دی ہے، آپ خوش ہوئے اور مذکورہ دعا فرمائی۔ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 143) 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما کو تہجد کی نماز میں اپنے برابر دائیں جانب کھڑا کیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے دوبارہ انھیں اپنے برابر کھڑا کر لیا۔ وہ پھر پیچھے ہو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھیں کیا ہے؟ میں تمھیں بار بار اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں اور تم پیچھے ہو جاتے ہو؟“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ آپ کے برابر کھڑا ہو جبکہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور رسول کے برابرکھڑا ہونا بے ادبی ہے۔ آپ اس جواب سے خوش ہوئے اور دعا فرمائی۔ (مسند احمد: 330/1، والصحیحة للألبانی حدیث: 606) ان واقعات سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت اور ان کا ادب واحترام ان کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 75