حدثنا الحميدي حدثنا سفيان عن مسعر وغيره عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب قال: قال رجل من اليهود لعمر يا امير المؤمنين لو ان علينا نزلت هذه الآية: {اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا} لاتخذنا ذلك اليوم عيدا. فقال عمر إني لاعلم اي يوم نزلت هذه الآية، نزلت يوم عرفة في يوم جمعة. سمع سفيان من مسعر ومسعر قيسا وقيس طارقا.حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِهِ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ لِعُمَرَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَنَّ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ. سَمِعَ سُفْيَانُ مِنْ مِسْعَرٍ وَمِسْعَرٌ قَيْسًا وَقَيْسٌ طَارِقًا.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے مسعر بن کدام اور ان کے علاوہ (سفیان ثوری) نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا کہ ایک یہودی (کعب احبار اسلام لانے سے پہلے) نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا» کہ ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔“ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔ امام بخاری نے کہا یہ روایت سفیان نے مسعر سے سنی، مسعر نے قیس سے سنا اور قیس نے طارق سے۔
Narrated Tariq bin Shihab: A Jew said to `Umar, "O Chief of the Believers, if this verse: 'This day I have perfected your religion for you, completed My favors upon you, and have chosen for you, Islam as your religion.' (5.3) had been revealed upon us, we would have taken that day as an `Id (festival) day." `Umar said, "I know definitely on what day this Verse was revealed; it was revealed on the day of `Arafat, on a Friday."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 373
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7268
حدیث حاشیہ: تو اس دن مسلمانوں کی دو عید یعنی عرفہ اور جمعہ تھیں اور اتفاق سے یہود اور نصاریٰ اور مجوس کی عیدیں بھی اسی دن آگئی تھیں۔ اس سے پیشتر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ الفاظ سمع سفیان میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے سماع کے صراحت کردی۔ اس حدیث کی مناسبت باب سے یوں ہے کہ اللہ پاک نے امت محمدیہ پر اس آیت میں احسان جتلایا کہ میں نے آج تمہادا دین پورا کردیا‘ اپنا احسان تم پر تمام کردیا۔ یہ جب وہی ہوگا کہ امت ورسول کے احکام پر قائم رہے۔ قرآن وحدیث کی پیروی کرتی رہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نزول آیت کے وقت اسلام مکمل ہو گیا بعد میں اندھی تقلید سے تقلیدی مذاہب نے اسلام میں اضافہ کر کے تقلید بغیر اسلام کی تکمیل کا مضحکہ اڑایا۔ فیا أسفیٰ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7268
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7268
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7268 کا باب: «كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ» باب اور حدیث میں مناسبت: باب میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا بیان ہے جبکہ تحت الباب دین اسلام کو مکمل کرنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں تطبیق و مناسبت کی کیفیت کو اجاگر کرتے ہوئے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ووجه سياق سياق الحديث هنا من حيث إن الآية تدل أن هذه الأمة المحمدية معتصمة بالكتاب والسنة، لأن تعالىٰ من عليهم بإكمال الدين، و إتمام النعمة، ورضي لهم دين الاسلام.»[لب اللباب فی تراجم والابواب: 224/5] ”یعنی حدیث کا سیاق اور آیت کریمہ اس پر دال ہیں کہ یہ امت محمدیہ کتاب و سنت کے ساتھ معتصم ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر دین کی تکمیل اور اپنی نعمت کے اتمام کے ذریعہ ان پر احسان فرمایا اور ان کے لیے اسلام کو پسند کیا۔“
علامہ کرمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «هذه الترجمة منتزعة من قوله تعاليٰ: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا﴾[آل عمران: 103] لأن المراد بالحبل: الكتاب و السنة على سبيل الاستعارة.»(1) ”یہ ترجمۃ الباب اس آیت سے ماخوذ ہے: « ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا﴾ »[آل عمران: 103] کیوں کے حبل سے مراد کتاب و سنت (دونوں ہیں) اور یہ بطور استعارہ ہے قدر مشترک دونوں کا مقصود (کے حصول) کا سبب ہونا۔“
علامہ کرمانی رحمہ اللہ کے مطابق باب کا تعلق دراصل آیت مبارکہ: « ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا﴾ »[آل عمران: 103] سے ہے اور حبل سے مراد قرآن و حدیث ہیں، لہٰذا ترجمۃ الباب جو حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں دین اسلام کا ذکر ہے اور دین اسلام اسی چیز کا نام ہے جسے قرآن و حدیث کہا جاتا ہے، لہٰذا یہاں مناسبت کا پہلو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7268
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی کے جواب میں جو ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمار لیے تو وہ دن عید ہی کا شمار ہوتا ہے، یعنی جمعے کے دن مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہوتی ہے۔ 2۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً اسی(80) دن زندہ رہے۔ واقعی اس وقت دین اسلام کے اصول وارکان مکمل ہوچکےتھے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آیت کا مدلول یہ ہے کہ اس امت مرحومہ نے کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت پر اس آیت کریمہ کے ذریعے سے احسان فرمایا کہ ان کے دین کو کامل ان پر اپنی نعمت کو پوراکرنے اور ان کے لیے دین اسلام کا انتخاب کرنے کے سبب ان سے رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ (عمدة القاري: 498/16) 3۔ مذکورہ آیت کریمہ محرمات کے ذکر کے درمیان ایک جملہ معترضہ کے طور پر ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان محرمات کا استعمال فسق اور حرام ہے اور ان اشیاء کی حرمت، دین کامل کا ایک حصہ اوراتمام نعمت ہے۔ دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور احکام وہدایات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کس بھی پہلو میں، خواہ وہ معاشرتی پہلو یا معاشی یا سیاسی، باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی اعتبارسے اسلام میں مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا کسی اور ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات ومحدثات کی ہے۔ اس اعتبار سے مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی جامع ہدایات عطا فرما دی ہیں جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہوجاتی ہے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے اُخروی نجات بھی یقینی بن جاتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7268