1. باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
(1) Chapter. What is said regarding the acceptance of the information given by one truthful person concerning Adhan, Salat (prayer), Saum (fasting), and all other obligations and laws prescribed by Allah.
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن خالد، عن ابي قلابة، عن انس رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لكل امة امين وامين هذه الامة ابو عبيدة".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خالد بن مہران نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر امت میں ایک امانت دار ہوتا ہے اور اس امت کے امانت دار ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7255
حدیث حاشیہ: یہ ایمانداری اور امانت داری میں فردید تھے گو اور سب صحابہ بھی ایماندار اور دیانتدار تھے مگر ان کا درجہ اس خاص صفت میں بہت ہی بڑھا ہوا تھا جسے عثمان رضی اللہ عنہ کا درجہ حیا میں‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شجاعت میں۔ (رضي اللہ عنهم أجمعین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7255
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7255
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایمان دار اور امانت دار تھے لیکن حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان داری اور امانت داری میں مزید اور بہت آگے بڑھے ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیا میں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہادری میں پیش پیش تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران کی تعلیم کے لیے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خبر واحد حجت ہے اور اس کی حجت سے انکار صرف ان لوگوں کو ہے جن کے دلوں میں دین اسلام کے متعلق شکوک و شبہات ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7255
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6252
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"ہراُمت میں ایک امین ہے اورہمارا امین،اے امت،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6252]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ کے ساتھیوں میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی مکارم اخلاق ودیعت فرمائے تھے، لیکن بعض صفات میں بعض کو خصوصی امتیاز حاصل تھا، حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح صفت امانت میں ممتاز تھے، لیکن کسی ایک وصف میں امتیاز سے کلی طور پر برتری حاصل نہیں ہوتی، اس میں مجموعی صفات کا لحاظ ہوتا ہے، جن میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سب پر فائق تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6252
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4382
4382. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4382]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی، سنایا پھر انہوں نے نہیں مانا آخر آپ نے فرمایا کہ آؤ ہم تم مباہلہ کرلیں یعنی دونوں فریق مل کر اللہ سے دعا کریں کہ یا اللہ! جو ہم میں سے ناحق پر ہو اس پر اپنا عذاب نازل کر۔ وہ مبا ہلہ کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے بلکہ اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ ہزار جوڑے کپڑے رجب میں اور ہزار جوڑے صفر میں دیا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گے۔ قرآن کی آیت ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4382
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4382
4382. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4382]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث اس لیے بیان کی ہے کہ اس کا سبب درود حضرت حذیفہ ؓ سے مروی حدیث ہے ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران کی طرف حضرت علی ؓ کو بھیجا تھا تاکہ ان سے صدقات یا جزیہ وغیرہ وصول کر کے لائیں۔ (زاد المعاد: 557/3) ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بھیجا ہو تا کہ ان سے صلح کا معاوضہ وصول کر کے لائیں، اس کے بعد حضرت علی ؓ کو روانہ کیا تاکہ جو عیسائی اپنے دین پر قائم ہیں ان سے جزیہ وصول کریں اور جو مسلمان ہو چکے ہیں ان سے صدقہ اور زکاۃ وغیرہ وصول کر کے لائیں۔ 2۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ فریق مخالف اگر دلائل حقہ کو نہ مانے بلکہ ان کا انکار کر دے تو اس سے مباہلہ کرنا مشروع ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے ایک حریف کومباہلے کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت کے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مباہلہ کرنے والا باطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا تھا، وہ دوماہ کے اندر اندر ہلاک ہو گیا تھا۔ (فتح الباري: 119/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4382