صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: خبر واحد کے بیان میں
The Book About The Information Given by One Person
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:
1. باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
(1) Chapter. What is said regarding the acceptance of the information given by one truthful person concerning Adhan, Salat (prayer), Saum (fasting), and all other obligations and laws prescribed by Allah.
حدیث نمبر: 7254
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن صلة، عن حذيفة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لاهل نجران:"لابعثن إليكم رجلا امينا حق امين، فاستشرف لها اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث ابا عبيدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَهْلِ نَجْرَانَ:"لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ، فَاسْتَشْرَفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا میں تمہارے پاس ایک امانت دار آدمی جو حقیقی امانت دار ہو گا بھیجوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ منتظر رہے (کہ کون اس صفت سے موصوف ہے) تو آپ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Hudhaifa: The Prophet said to the people of Najran, "I will send to you an honest person who is really trustworthy." The Companion, of the Prophet each desired to be that person, but the Prophet sent Abu 'Ubaida.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 91, Number 360


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3745حذيفة بن حسيلأبعثن يعني عليكم يعني أمينا حق أمين فأشرف أصحابه فبعث أبا عبيدة
   صحيح البخاري7254حذيفة بن حسيلأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين فاستشرف لها أصحاب النبي فبعث أبا عبيدة
   صحيح البخاري4380حذيفة بن حسيلأبعثن معكم رجلا أمينا حق أمين فاستشرف له أصحاب رسول الله فقال قم يا أبا عبيدة بن الجراح فلما قام قال رسول الله هذا أمين هذه الأمة
   صحيح البخاري4381حذيفة بن حسيلأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين
   صحيح مسلم6254حذيفة بن حسيلأبعثن إليكم رجلا أمينا حق أمين حق أمين قال فاستشرف لها الناس قال فبعث أبا عبيدة بن الجراح
   جامع الترمذي3796حذيفة بن حسيلسأبعث معكم أمينا حق أمين فأشرف لها الناس فبعث أبا عبيدة بن الجراح
   سنن ابن ماجه135حذيفة بن حسيلسأبعث معكم رجلا أمينا حق أمين قال فتشوف لها الناس فبعث أبا عبيدة بن الجراح

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7254 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7254  
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی خبر واحد کا اثبات ہوا کہ آپ نے اکیلے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمانے کا اعلان کیا اور ان کو بھیجا۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7254   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث135  
´ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک ایسے امانت دار آدمی کو بھیجوں گا جو انتہائی درجہ امانت دار ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ اس امین شخص کی جانب گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 135]
اردو حاشہ:
(1)
نجران کا علاقہ مکہ اور یمن کے درمیان ہے اور یہ لوگ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے۔ 9 ہجری میں ان کا وفد مدینہ منورہ آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض مسائل پر گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔
انہوں نے انکار کیا تو آیاتِ مباہلہ نازل ہوئیں۔
انہوں نے آپس میں کہا:
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی نبی ہیں تو ان سے مباہلہ کر کے ہم تباہی سے نہیں بچ سکتے، چنانچہ انہوں نے جزیہ دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی۔
اور عرض کیا کہ ایک دیانت دار آدمی روانہ فرمائیں، آپﷺ  نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور اسی موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
بعد میں یہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ دیکھیے: (الرحیق المختوم، ص: 604 تا 606)

(2)
مالی ذمہ داریوں کے لیے دیانت دار آدمی کا تعین کرنا چاہیے۔
دوسری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دیانت داری اہم ترین شرط ہے جو اس قسم کے منصب کے لیے ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6254  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
استشرف لها:
اس کے لیے نظریں اٹھائیں اور اس وصف کا اہل ہونے کی آرزو اور خواہش کی،
اہل نجران سے مراد یہاں اہل یمن ہیں،
دونوں علاقے پڑوس میں واقع ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6254   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4380  
4380. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: یہ شخص اس امت کا امین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4380]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وَفِي قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ مِنَ الْفَوَائِدِ أَنَّ إِقْرَارَ الْكَافِرِ بِالنُّبُوَّةِ لَا يُدْخِلُهُ فِي الْإِسْلَامِ حَتَّى يَلْتَزِمَ أَحْكَامَ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا جَوَازُ مُجَادَلَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَدْ تَجِبُ إِذَا تَعَيَّنَتْ مَصْلَحَتُهُ وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَمِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَا تَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ وَوَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ وَفِيهَا مُصَالَحَةُ أَهْلِ الذِّمَّةِ عَلَى مَا يَرَاهُ الْإِمَامُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ وَيَجْرِي ذَلِكَ مَجْرَى ضَرْبِ الْجِزْيَةِ عَلَيْهِمْ فَإِنَّ كُلًّا مِنْهُمَا مَالٌ يُؤْخَذُ مِنَ الْكُفَّارِ عَلَى وَجْهِ الصَّغَارِ فِي كُلِّ عَامٍ وَفِيهَا بَعْثُ الْإِمَامِ الرَّجُلَ الْعَالِمَ الْأَمِينَ إِلَى أَهْلِ الْهُدْنَةِ فِي مَصْلَحَةِ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا مَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقد ذكر بن إِسْحَاقَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِيًّا إِلَى أَهْلِ نَجْرَانَ لِيَأْتِيَهُ بِصَدَقَاتِهِمْ وَجِزْيَتِهِمْ وَهَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ قِصَّةِ أَبِي عُبَيْدَةَ لِأَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ تَوَجَّهَ مَعَهُمْ فَقَبَضَ مَالَ الصُّلْحِ وَرَجَعَ وَعَلِيٌّ أَرْسَلَهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ يَقْبِضُ مِنْهُمْ مَا اسْتُحِقَّ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ وَيَأْخُذُ مِمَّنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ مَا وَجَبَ عَلَيْهِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَاللَّهُ أعلم (فتح الباري)
حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں۔
جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب، جب اس مین کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماء کے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والا باطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے (علامہ ابن حجر کے)
ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہو اور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیہ کے لیے حضرت علی ؓ کو بھیجاتھا۔
یہ موقع دوسراہے۔
حضرت ابو عبیدہ ؓ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی ؓ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے۔
ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔
یہی نجرانی تھے جن کے لیے آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی کا آدھا حصہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے خالی فرمادیا تھا۔
رسول کریم ﷺ کی اہل مذاہب کے ساتھ یہ رواداری ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جاتی رہے گی، (صلی اللہ علیہ وسلم)
صدافسوس کہ آج خود اسلامی فرقوں میں یہ رواداری مفقود ہے۔
ایک سنی شیعہ مسجد میں اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے۔
ایک وہابی کو دیکھ کر ایک بریلوی کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔
فلبیك علی الإسلام من کان باکیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4380   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4381  
4381. حضرت حذیفہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ اہل نجران نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہمارے پاس کسی امین شخص کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے پاس ایسا امانت دار ضرور بھیجوں گا جو کامل امین ہے۔ لوگوں نے آپ کی طرف گردنیں اونچی کیں تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو روانہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4381]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبد اللہ بن جراح ؓ فہری قریشی ہیں۔
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس امت کے امین کہلاتے ہیں۔
حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے ساتھ اسلام لائے۔
حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کی۔
تمام غزوات میں حاضر رہے۔
جنگ احد میں انہوں نے خود کی ان دوکڑیوں کو جو آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک میں گھس گئی تھیں کھینچا تھا جن کی وجہ سے آپ کے آگے کے دو دانت شہید ہوگئے تھے۔
یہ لمبے قدوالے خوبصورت چہرے والے تھے۔
طاعون عمواس میں 18ھ میں بمقام اردن انتقال ہوا اور بیسا ن میں دفن ہوئے۔
عمر اٹھاون سال کی تھی۔
ان کا نسب نامہ رسول کریم ﷺ سے فہر بن مالک پر مل جاتا ہے، رضي اللہ عنه و أرضاہ، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4381   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3745  
3745. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اہل نجران سے فرمایا: میں تمھارے ہاں ایسا حاکم بھیجوں گا جو کامل امین ہوگا۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بھیجا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3745]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی الگ الگ خصوصیات ہیں چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا:
میری امت میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر ؓ اللہ کے احکام کے نفاذ میں زیادہ سخت عمر، سب سے زیادہ حیا دار عثمان رؓ، حلال و حرام کے زیادہ عالم معاذ بن جبل ؓ، وراثت کا علم زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ؓ، قرآن کریم کے قاری ابی بن کعب ؓ اور ہر امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ؓ ہیں۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3791)
اگرچہ امانت و دیانت کا وصف دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی موجود تھا لیکن سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بطور خاص اس وصف کے حامل تھے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ کا حیا دار ہونا اور حضرت علی ؓ کا انصاف پسندہونا بیان ہوا ہے۔
(فتح الباري: 119/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3745   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4380  
4380. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: یہ شخص اس امت کا امین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4380]
حدیث حاشیہ:

سید کا نام ابہم تھا شرجیل بھی کہا جاتا تھا۔
اور عاقب کا نام عبدالمسیح تھا یہ ان کا مشیر تھا۔
وہ اسی کے مشورے سے تمام امور سر انجام دیتے تھےابو حارث بن علقمہ بہت بڑا عالم، امام، صاحب مدراس تھا اور سیدان کا نگران اور حضر و سفر کا ذمہ دار تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تم میری باتوں کا انکار کرتے ہو تو میں تم سے مباہلہ کرتا ہوں۔
ان میں سے سید اور عاقب نے کہا:
ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے البتہ آپ ہم سے جو طلب کریں ہم دینے کے لیے حاضر ہیں اور آپ سے صلح کرتے ہیں۔
چنانچہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے ہزار جوڑے ماہ رجب میں اور ہزار جوڑے ماہ صفر میں ادا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گےجب وہ صلح کر کے اپنے وطن روانہ ہو گئے تو تھوڑے ہی دنوں بعد سید اور عاقب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد: 357/1۔
وفتح الباري: 118/8)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4380   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.